صحيح البخاري
كِتَاب الدَّعَوَاتِ -- کتاب: دعاؤں کے بیان میں
19. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَصَلِّ عَلَيْهِمْ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ التوبہ میں) فرمان «وصل عليهم‏» ۔
وَمَنْ خَصَّ أَخَاهُ بِالدُّعَاءِ دُونَ نَفْسِهِ وَقَالَ أَبُو مُوسَى: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ ذَنْبَهُ.
‏‏‏‏ اور ان کے لیے دعا کیجئے۔ اور جس نے اپنے آپ کو چھوڑ کر اپنے بھائی کے لیے دعا کی اس کی فضیلت کا بیان۔ اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! عبیدہ ابوعامر کی مغفرت کر، اے اللہ! عبداللہ بن قیس کے گناہ معاف کر۔
حدیث نمبر: 6331
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ الْأَكْوَعِ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَيَا عَامِرُ، لَوْ أَسْمَعْتَنَا مِنْ هُنَيْهَاتِكَ، فَنَزَلَ يَحْدُو بِهِمْ يُذَكِّرُ تَاللَّهِ لَوْلَا اللَّهُ مَا اهْتَدَيْنَا وَذَكَرَ شِعْرًا غَيْرَ هَذَا وَلَكِنِّي لَمْ أَحْفَظْهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ هَذَا السَّائِقُ"، قَالُوا: عَامِرُ بْنُ الْأَكْوَعِ، قَالَ:" يَرْحَمُهُ اللَّهُ"، وَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْلَا مَتَّعْتَنَا بِهِ، فَلَمَّا صَافَّ الْقَوْمَ قَاتَلُوهُمْ، فَأُصِيبَ عَامِرٌ بِقَائِمَةِ سَيْفِ نَفْسِهِ فَمَاتَ، فَلَمَّا أَمْسَوْا أَوْقَدُوا نَارًا كَثِيرَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا هَذِهِ النَّارُ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تُوقِدُونَ؟"، قَالُوا: عَلَى حُمُرٍ إِنْسِيَّةٍ، فَقَالَ:" أَهْرِيقُوا مَا فِيهَا وَكَسِّرُوهَا"، قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نُهَرِيقُ مَا فِيهَا وَنَغْسِلُهَا قَالَ:" أَوْ ذَاكَ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے مسلم کے مولیٰ یزید بن ابی عبیدہ نے اور ان سے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر گئے (راستہ میں) مسلمانوں میں سے کسی شخص نے کہا عامر! اپنی حدی سناؤ۔ وہ حدی پڑھنے لگے اور کہنے لگے۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے اس کے علاوہ دوسرے اشعار بھی انہوں نے پڑھے مجھے وہ یاد نہیں ہیں۔ (اونٹ حدی سن کر تیز چلنے لگے تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ سواریوں کو کون ہنکا رہا ہے، لوگوں نے کہا کہ عامر بن اکوع ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اس پر رحم کرے۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کاش ابھی آپ ان سے ہمیں اور فائدہ اٹھانے دیتے۔ پھر جب صف بندی ہوئی تو مسلمانوں نے کافروں سے جنگ کی اور عامر رضی اللہ عنہ کی تلوار چھوٹی تھی جو خود ان کے پاؤں پر لگ گئی اور ان کی موت ہو گئی۔ شام ہوئی تو لوگوں نے جگہ جگہ آگ جلائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ آگ کیسی ہے، اسے کیوں جلایا گیا ہے؟ صحابہ نے کہا کہ پالتو گدھوں (کا گوشت پکانے) کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کچھ ہانڈیوں میں گوشت ہے اسے پھینک دو اور ہانڈیوں کو توڑ دو۔ ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اجازت ہو تو ایسا کیوں نہ کر لیں کہ ہانڈیوں میں جو کچھ ہے اسے پھینک دیں اور ہانڈیوں کو دھو لیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا یہی کر لو۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6891  
´اگر کسی نے غلطی سے اپنے آپ ہی کو مار ڈالا`
«. . . عَنْ سَلَمَةَ، قَالَ:" خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: أَسْمِعْنَا يَا عَامِرُ مِنْ هُنَيْهَاتِكَ، فَحَدَا بِهِمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنِ السَّائِقُ؟، قَالُوا: عَامِرٌ، فَقَالَ: رَحِمَهُ اللَّهُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلَّا أَمْتَعْتَنَا بِهِ، فَأُصِيبَ صَبِيحَةَ لَيْلَتِهِ، فَقَالَ الْقَوْمُ: حَبِطَ عَمَلُهُ قَتَلَ نَفْسَهُ، فَلَمَّا رَجَعْتُ وَهُمْ يَتَحَدَّثُونَ أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ، فَجِئْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ فَدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، زَعَمُوا أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ، فَقَالَ كَذَبَ مَنْ قَالَهَا، إِنَّ لَهُ لَأَجْرَيْنِ اثْنَيْنِ: إِنَّهُ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ، وَأَيُّ قَتْلٍ يَزِيدُهُ عَلَيْهِ . . .»
. . . سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے۔ جماعت کے ایک صاحب نے کہا عامر! ہمیں اپنی حدی سنائیے۔ انہوں نے حدی خوانی شروع کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کون صاحب گا گا کر اونٹوں کو ہانک رہے ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ عامر ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ ان پر رحم کرے۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے ہمیں عامر سے فائدہ کیوں نہیں اٹھانے دیا۔ چنانچہ عامر رضی اللہ عنہ اسی رات کو اپنی ہی تلوار سے شہید ہو گئے۔ لوگوں نے کہا کہ ان کے اعمال برباد ہو گئے، انہوں نے خودکشی کر لی (کیونکہ ایک یہودی پر حملہ کرتے وقت خود اپنی تلوار سے زخمی ہو گئے تھے) جب میں واپس آیا اور میں نے دیکھا کہ لوگ آپس میں کہہ رہے ہیں کہ عامر کے اعمال برباد ہو گئے تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! آپ پر میرے باپ اور ماں فدا ہوں، یہ لوگ کہتے ہیں کہ عامر کے سارے اعمال برباد ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص یہ کہتا ہے غلط کہتا ہے۔ عامر کو دوہرا اجر ملے گا وہ (اللہ کے راستہ میں) مشقت اٹھانے والے اور جہاد کرنے والے تھے اور کس قتل کا اجر اس سے بڑھ کر ہو گا؟ [صحيح البخاري/كِتَاب الدِّيَاتِ: 6891]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6891 کا باب: «بَابُ إِذَا قَتَلَ نَفْسَهُ خَطَأً فَلاَ دِيَةَ لَهُ:»

باب اورحدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں اس شخص کا ذکر فرمایا ہے جو خطا کے ساتھ اپنے تئیں قتل ہو جائے تو اس پر دیت نہ ہو گی، مگر تحت الباب حدیث میں خطا کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں خطا کا ذکر اس لیے فرمایا کہ خطا کا معاملہ محل اختلاف ہے، لہٰذا ترجمۃ الباب کے ذریعے آپ راجح کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«والذى يظهر أن البخاري إنما قيّد بالخطاء لأنه محل الخلاف، قال ابن بطال: قال الأوزاعي و أحمد و إسحاق، تجب ديته على عاقلته، فإن عاش فهي له عليه، وإن مات فهي لورثته، وقال الجمهور لا يجب فى ذالك شيئي، وقصة عامر هذه حجة لهم إذ لم ينقل أن النبى صلى الله عليه وسلم أوجب فى هذه القصة له شيئا، ولو وجب لبيّنها إذ لا يجوز تأخير البيان عن وقت الحاجة، وقر اجمعوا (على) أنه لو قطع طرفًا من أطرافه عمدًا أو خطأ لا يجب فيه شيئي.» [فتح الباري لابن حجر: 186/13]
جو بات ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے خطا کی قید اس لیے ذکر فرمائی ہے کہ یہ محل اختلاف ہے، بقول ابن بطال، اوزاعی، احمد اور اسحاق کے نزدیک اس صورت میں اس کی دیت اس کی عاقلہ کے ذمہ ہے، اگر زندہ رہا تو یہ اس کے لیے ان کے ذمہ ہے، اور اگر مر گیا تو اس کے ورثا کے لیے ہے، جمہور کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی چیز واجب نہیں ہو گی، سیدنا عامر رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ ان کے لیے حجت ہے، کیوں کہ یہ منقول نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ میں کوئی شئی واجب فرمائی ہو، اگر واجب فرمائی ہوتی تو اس کا ذکر (لازماً) کرتے، کیونکہ وقت حاجت سے تاخیر بیان جائز نہیں، اس امر پر اجماع ہے کہ اگر عمداً یا غلطی سے اپنا کوئی عضو قطع کر لیا تو اس میں کچھ بھی واجب نہیں ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب کا انعقاد کئی ایک حکمتوں کے پیش نظر فرمایا ہے، جن کا ذکر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے، چنانچہ ترجمۃ الباب میں جو لفظ «خطاء» کا ہے، اس میں ایک یہ بھی حکمت ہے جس کا ذکر حافظ رحمہ اللہ کرتے ہیں، چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
«وظن الاسماعيلي تعقب ذالك على البخاري و ليس كما ظن و إنما ساق الحديث بلفظ فارتد عليه سيفه ثم نبه على أن هذا اللفظة لم تقع فى رواية البخاري هنا فأشار إلى أنه عدل هنا عن رواية مكي . . . . . ويجاب بأن البخاري يعتمد هذه الطريق كثيرًا فيترجم بالحكم و يكون قد أورد ما يدل عليه صريحًا فى مكان آخر فلا يجب أن يعيده . . . . . .» [فتح الباري لابن حجر: 187/13]
اسماعیلی اس بات سے امام بخاری رحمہ اللہ کا تعقب کرتے ہیں مگر ان کا یہ ظن ٹھیک نہیں ہے کیونکہ انہوں نے یہ حدیث «فارتد عليه نفسه» کے الفاظ سے نقل کیے ہیں، پھر تنبیہ کی ہے کہ یہ الفاظ یہاں کی روایت بخاری میں نہیں تھے تو اشارہ کیا کہ اس نکتہ کے مدنظر مکی بن ابراہیم کی روایت سے عدول کیا ہے تو یہ اس کے وضوح کے مدنظر اولیٰ ہے، جواب دیا گیا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ یہ اسلوب بکثرت استعمال کرتے ہیں کہ حکم کے ساتھ ترجمۃ الباب قائم کرتے ہیں اور انہیں اس پر صریحاً دال روایت کسی اور جگہ نقل کی ہوتی ہے تو اس کا اعادہ کرنا پسند نہیں کرتے تو اسے کسی اور طریق کے حوالے سے وارد کرتے ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ان اقتباسات سے یہ بات واضح ہوئی کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جو ترجمۃ الباب میں «خطاء» کے الفاظ شامل فرمائے ہیں یہ مفہوم بھی دوسری حدیث میں موجود ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو یہاں ذکر نہیں فرمایا تاکہ تکرار کا باعث نہ بنے، چنانچہ جس حدیث میں اس لفظ «خطاء» کی صراحت ہے وہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ہی صحیح میں ذکر فرمائی جس کے الفاظ یہ ہیں:
«فلما تصافّ القوم كان سيف عامر فيه قصر فتناول به يهوديًا ليضربه و يرجع ذباب سيفه فأصاب ركبة عامر فمات منه.» [صحيح البخاري: ح: 6148]
یعنی جب لوگوں نے صف بندی کر لی تو سیدنا عامر رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار سے ایک یہودی پر وار کیا، ان کی تلوار چھوٹی تھی، اس کی نوٹ پلٹ کر خود انہی کے گھٹنوں پر لگی اور اس کی وجہ سے ان کی شہادت ہو گئی۔
چنانچہ اس منظر کے پیش نظر باب کا تعلق حدیث کے ساتھ قائم ہو گیا۔
علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«انما يتم مقصود الترجمة بذكر القصة التى مات فيها عامر، وذالك أن سيفه كان قصيرًا، فرجع إلى ركبته من ضربته، فمات منها، وقد بينه فى غير هذا الموضع.» [المتواري: ص 347]
ترجمۃ الباب کا تمام ہونا اس قصہ کے ساتھ ہے جس میں سیدنا عامر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی، جس میں یہ واقعہ ہے کہ ان کی تلوار چھوٹی تھی، جس کی وجہ سے وہ پلٹ کر آپ ہی کے گھٹنوں پر لگی جس کی پاداش میں آپ کی شہادت ہوئی، اس واقعہ کی وضاحت دوسری جگہ پر ہے۔
بدر الدین بن جماعۃ رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
ترجمۃ الباب کا حدیث سے مطابقت کے لیے اس حدیث کو یہاں پر ذکر نہیں کیا، جس میں (خطاء) کا ذکر ہے، اور وہ روایت کچھ یوں ہے کہ سیدنا عامر رضی اللہ عنہ کی تلوار ہی آپ پر لوٹ آئی، جبکہ آپ کفار سے لڑ رہے تھے، پس اسی کی وجہ سے آپ قتل ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر دیت بھی واجب نہیں فرمائی۔
مزید لکھتے ہیں:
«فاكتفى بذكر أصل الحديث للعلم لمطابقة للترجمة فى الرواية الأخرى و قدمنا غير مرة انه يعتاد ذائك كثيرًا.» [مناسبات تراجم البخاري ص 128]
اب جہاں تک تعلق ہے، ترجمۃ الباب میں لفظ «دية» کا کہ تحت الباب حدیث میں دیت کے الفاظ موجود نہیں ہے تو اس کی مناسبت حدیث کے ساتھ کس طرح سے قائم ہو گی؟ لہذا اس لفظ کی مطابقت کے لیے علامہ عینی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«مطابقة للترجمة من حيث انه صلى الله عليه وسلم لم يحكم بالدية لورثة عامر على عاقلته أو على بيت المال المسلمين.» [عمدة القاري شرح صحيح البخاري: 76/23]
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مطابقت یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عامر رضی اللہ عنہ کے وارثوں کو دیت دینے کا کوئی حکم نہیں دیا تھا۔
لہذا ان تصریحات سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت قائم ہوتی ہے۔
فائدہ:
مذکورہ بالا حدیث امام بخاری رحمہ اللہ کی ثلاثیات میں سے ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 254   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6331  
6331. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ خیبر کی طرف گئے۔ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: اے عامر! اگر تم ہمیں اپنے اشعار سناؤ تو بہت اچھا ہوگا چنانچہ وہ حدی پڑھنے لگے۔ اس کا آغاز کیا: اللہ کی قسم! اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے اس کے بعد دوسرے اشعار بھی پڑھے لیکن وہ مجھے یاد نہیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اونٹوں کو چلانے والا یہ شخص کون ہے؟ صحابہ کرام‬ ؓ ن‬ے کہا: یہ عامر بن اکوع ہیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ اس پر رحم کرے۔ صحابہ کرام میں سے ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! کاش ہمیں ان سے مزید نفع اٹھانے دیتے پھر جب صف بندی ہوئی تو مسلمانوں نے کافروں سے جنگ کی۔ (چونکہ حضرت عامر ؓ کی تلوار چھوٹی تھی اس لیے وہ اپنی تلوار ہی سے زخمی ہوگئے اور ان کی موت واقع ہوگئی۔ شام ہوئی تو لوگوں نے جگہ جگہ آگ جلائی۔ رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا: یہ آگ کیسی ہے؟ اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6331]
حدیث حاشیہ:
حضرت عامر بن اکوع رضی اللہ عنہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ یرحمه اللہ کہہ کر دعا فرمائی ہے یہی باب سے مطابقت ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس دعا سے سمجھ گئے کہ عامر بن اکوع کی شہادت یقینی ہے۔
اسی لئے انہوں نے لفظ مذکور زبان سے نکالے آخر خود ان ہی کی تلوار سے ان کی شہادت ہوگئی وہ یقینا شہید ہوگئے۔
یہ حدیث مفصل پہلے بھی گزرچکی ہے لوگوں نے خود کشی کا غلط گمان کیا تھا بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گمان کی تغلیط فرما کر حضرت عامر رضی اللہ عنہ کی شہادت کا اظہار فرمایا۔
راوی حدیث حضرت سلمہ بن اکوع کی کنیت ابومسلم ہے اورشجرہ کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے ہیں۔
بہت بڑے دلاور وبہادر تھے۔
مدینہ میں 74ھ میں بعمر اسی سال فوت ہوئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6331   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6331  
6331. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ خیبر کی طرف گئے۔ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: اے عامر! اگر تم ہمیں اپنے اشعار سناؤ تو بہت اچھا ہوگا چنانچہ وہ حدی پڑھنے لگے۔ اس کا آغاز کیا: اللہ کی قسم! اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے اس کے بعد دوسرے اشعار بھی پڑھے لیکن وہ مجھے یاد نہیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اونٹوں کو چلانے والا یہ شخص کون ہے؟ صحابہ کرام‬ ؓ ن‬ے کہا: یہ عامر بن اکوع ہیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ اس پر رحم کرے۔ صحابہ کرام میں سے ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! کاش ہمیں ان سے مزید نفع اٹھانے دیتے پھر جب صف بندی ہوئی تو مسلمانوں نے کافروں سے جنگ کی۔ (چونکہ حضرت عامر ؓ کی تلوار چھوٹی تھی اس لیے وہ اپنی تلوار ہی سے زخمی ہوگئے اور ان کی موت واقع ہوگئی۔ شام ہوئی تو لوگوں نے جگہ جگہ آگ جلائی۔ رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا: یہ آگ کیسی ہے؟ اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6331]
حدیث حاشیہ:
(1)
عرب لوگ اونٹوں پر سفر کرتے وقت خوش الحانی سے چھوٹے چھوٹے شعر پڑھتے تھے جن سے مست ہو کر اونٹ تیزی سے چلتے تھے۔
حضرت عامر بن اکوع بھی بہت اچھے حدی خواں تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اشعار سن کر فرمایا:
''اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے!'' حضرات صحابۂ کرام میں یہ معروف تھا کہ غزوے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی شخص کے لیے رحم کی دعا کرتے تو وہ زندہ نہ رہتا بلکہ شہید ہو جاتا، اس لیے انہوں نے کہا:
اللہ کے رسول! کاش! ہمیں ان کی زندگی سے مزید فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا۔
(2)
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف عامر رضی اللہ عنہ کے لیے دعائیہ کلمات استعمال کیے، دعا میں اپنی ذات کا ذکر نہیں فرمایا۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا مذکورہ حدیث لانے سے یہی مقصود ہے۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6331