صحيح البخاري
كِتَاب الدَّعَوَاتِ -- کتاب: دعاؤں کے بیان میں
30. بَابُ الدُّعَاءِ بِالْمَوْتِ وَالْحَيَاةِ:
باب: موت اور زندگی کی دعا کے بارے میں۔
حدیث نمبر: 6350
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَيْسٌ، قَالَ: أَتَيْتُ خَبَّابًا وَقَدِ اكْتَوَى سَبْعًا فِي بَطْنِهِ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ:" لَوْلَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَانَا أَنْ نَدْعُوَ بِالْمَوْتِ لَدَعَوْتُ بِهِ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا، کہا کہ میں خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے اپنے پیٹ پر سات داغ لگوا رکھے تھے، میں نے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں اس کی ضرور دعا کر لیتا۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6350  
6350. حضرت قیس ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت خباب ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ انہوں نے اپنے پیٹ پر سات داغ لگوا رکھے تھے میں نے سنا آپ فرما رہے تھے: اگر نبی ﷺ نے ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو آج میں ضرور اس کی دعا کرتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6350]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ اس وقت سخت تکلیف میں مبتلا تھے۔
شدت تکلیف کی وجہ سے انہوں نے ایسا فرمایا۔
بہرحال موت کی دعا کرنا منع ہے بلکہ اللہ تعالیٰ سے ایسی لمبی عمر کی دعا کرنی چاہیے جس سے سعادت دارین حاصل ہو۔
یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن لمبی عمر والے نیک حضرات درجات کے اعتبار سے شہداء سے آگے ہوں گے۔
(2)
موت کی دعا کرنا اس لیے منع ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی ناشکری کا پہلو نکلتا ہے بلکہ قضا و قدر سے تنگی کا اظہار ہے جو ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔
اگر دین و ایمان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو تو موت کی تمنا کرنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ آئندہ حدیث سے معلوم ہو گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6350