صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
15. بَابُ مَنِ انْتَظَرَ الإِقَامَةَ:
باب: اذان سن کر جو شخص (گھر میں بیٹھا) تکبیر کا انتظار کرے۔
حدیث نمبر: 626
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ بِالْأُولَى مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ بَعْدَ أَنْ يَسْتَبِينَ الْفَجْرُ، ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ لِلْإِقَامَةِ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہوں نے زہری سے، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جب مؤذن صبح کی دوسری اذان دے کر چپ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے اور فرض سے پہلے دو رکعت (سنت فجر) ہلکی پھلکی ادا کرتے صبح صادق روشن ہو جانے کے بعد پھر داہنی کروٹ پر لیٹ رہتے۔ یہاں تک کہ مؤذن تکبیر کہنے کی اطلاع دینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 947  
´فجر کی دونوں رکعتیں ہلکی پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر کی سنتیں پڑھتے دیکھتی، آپ انہیں اتنی ہلکی پڑھتے کہ میں (اپنے جی میں) کہتی تھی: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سورۃ فاتحہ پڑھی ہے (یا نہیں)۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 947]
947 ۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ مبالغہ ہے جس سے مقصود تخفیف ہے، نہ کہ انہیں شک تھا۔ خصوصاً رات کی نماز (تہجد) کے مقابلے میں تو یہ بہت ہی خفیف معلوم ہوتی ہوں گی، چنانچہ اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ فجر کی دو سنتیں ہلکی پڑھنا مستحب ہے۔
➋ مذکورہ قرأت سورۂ فاتحہ کے علاوہ ہے۔ یہ نہیں کہ صرف یہ آیات یا یہ سورتیں ہی پڑھتے تھے۔ سورۂ فاتحہ کے بارے میں تو آپ کا صریح فرمان ہے کہ جو فاتحہ نہ پڑھے، اس کی نماز نہیں ہوتی۔ [صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 756، و صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 874]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 947   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1198  
´وتر کے بعد اور فجر کی دو رکعت سنت کے بعد لیٹنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی دو رکعت سنت پڑھ لیتے تو دائیں کروٹ لیٹ جاتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1198]
اردو حاشہ:
فائده:
فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا سنت ہے۔
لیکن نبی اکرمﷺ سے بعض اوقات نہ لیٹنا بھی ثابت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی سے مروی ہے۔
انھوں نے فرمایا نبی اکرمﷺ جب فجر کی سنتیں پڑھ لیتے تو اگر میں جاگ رہی ہوتی تو آپ مجھ سے بات چیت كرتے ورنہ لیٹ جائے حتیٰ کہ آپ کو نماز (کی اقامت ہوجانے)
کی اطلاع دی جاتی۔ (صحیح البخاري، التهجد، باب من تحدث بعدالرکعتین ولم یضطع، حدیث: 1161)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1198   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 287  
´نفل نماز کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے پہلے دو رکعت ہلکی پڑھتے تھے۔ میں خیال کرتی کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف «‏‏‏‏ام الكتاب» ‏‏‏‏ (سورۃ الفاتحہ) ہی پڑھی۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 287»
تخریج:
«أخرجه البخاري، التهجد، باب ما يقرأ في ركعتي الفجر، حديث:1171، ومسلم، صلاة المسافرين، باب استحباب ركعتي سنة الفجر، حديث:724.»
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صبح کی دو سنتیں مختصر اور ہلکی پڑھتے تھے۔
امام شافعی اور جمہور علماء رحمہما اللہ نے اسی بنا پر کہا ہے کہ ان دو رکعتوں میں مختصر قیام افضل ہے جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ان میں بھی لمبا قیام افضل قرار دیتے ہیں۔
لیکن یہ صحیح نہیں۔
ان کے دونوں شاگرد امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ نے بھی ان کی مخالفت کی ہے۔
سورۂ فاتحہ کے علاوہ آپ چھوٹی سورتیں پڑھتے تھے جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 287   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1262  
´فجر کی سنت کے بعد لیٹنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری رات میں اپنی نماز پوری کر چکتے تو اگر میں جاگ رہی ہوتی تو آپ مجھ سے گفتگو کرتے اور اگر سو رہی ہوتی تو مجھے جگا دیتے، اور دو رکعتیں پڑھتے پھر لیٹ جاتے، یہاں تک کہ آپ کے پاس مؤذن آتا اور آپ کو نماز فجر کی خبر دیتا تو آپ دو ہلکی سی رکعتیں پڑھتے، پھر نماز کے لیے نکل جاتے۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1262]
1262۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث میں وتروں کے بعد گفتگو کرنے اور دو رکعتیں پڑھ کر لیٹ جانے کا ذکر ہے۔ جس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ فجر کی دو سنتوں کے بعد لیٹنا سنت نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو یوں ہی استرحت کے لیے لیٹ جاتے تھے، کبھی نماز تہجد کے بعد (جیسا کہ اس حدیث میں ہے) اور کبھی فجر کی سنتوں کے بعد۔ لیکن یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ اس حدیث میں گفتگو کرنے اور وتروں کے بعد لیٹنے والی بات محفوظ نہیں ہے یعنی ایک راوی کو وہم ہوا ہے، جب کہ دوسرے تمام راویوں نے لیٹنے کا ذکر سنتوں کے بعد ہی کیا ہے۔ اس لیے فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کو غیر مستحب قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو: [فتح الباري، باب من تحدث بعد الركعتين ولم يضطجع: 3/56]
علاوہ ازیں شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی فجر کی سنتوں سے پہلے لیٹنے اور گفتگو کرنے کو شاذ قرار دیا ہے۔ [ضعيف ابوداؤد]
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وتروں کے بعد دو رکعتیں نفل پڑھنا بھی جائز ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ تم وتر کو اپنی رات کی آخری نماز بناؤ۔ تو یہ حکم وجوب کے طور پر نہیں، استحباب کے طور پر ہے۔ [مرعاة المفاتيح]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1262   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 626  
626. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہو جاتا تو فوراً رسول اللہ ﷺ فجر کے ظاہر ہونے کے بعد نماز فجر سے پہلے ہلکی پھلکی دو رکعتیں ادا فرماتے، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے تاآنکہ مؤذن تکبیر کے لیے آپ کے ہاں حاضر خدمت ہوتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:626]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ گھر میں سنت پڑھ کر جماعت کھڑی ہونے کا انتظار کرتے ہوئے بیٹھے رہنا جائز ہے۔
آج کل گھڑی گھنٹوں کا زمانہ ہے۔
ہرنمازی مسلمان اپنے ہاں کی جماعتوں کے اوقات کو جانتا ہے پس، اگر کوئی شخص عین جماعت کھڑی ہونے کے وقت پر گھر سے نکل کر شامل جماعت ہوتو یہ بھی درست ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 626   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:626  
626. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہو جاتا تو فوراً رسول اللہ ﷺ فجر کے ظاہر ہونے کے بعد نماز فجر سے پہلے ہلکی پھلکی دو رکعتیں ادا فرماتے، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے تاآنکہ مؤذن تکبیر کے لیے آپ کے ہاں حاضر خدمت ہوتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:626]
حدیث حاشیہ:
(1)
متعدد روایات میں اذان سننے کے بعد فورا جماعت کےلیے مسجد میں آنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے کہ مسجد میں جماعت کا انتظار کرنے والے کے مترادف شمار کیا گیا ہے۔
امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کا گھر مسجد کے قریب ہے اور وہ اذان سننے کے فوراً بعد مسجد میں آنے کے بجائے اپنے گھر میں اقامت کا انتظار کرتا ہے تو اسے نماز کےلیے جلدی چلے آنے ہی کا ثواب ملے گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ گھر میں نماز کے لیے اقامت کا انتظار فرماتے تھے۔
بعض علماء کا موقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ چونکہ امام تھے اور امام اذان سننے کے بعد فوراً مسجد میں چلے آنے کا پابند نہیں ہے، اس لیے گھر میں تکبیر کا انتظار کرنا امام کے ساتھ خاص ہے، کوئی دوسرا اس خصوصیت میں اس کا شریک نہیں۔
(2)
اس حدیث میں تکبیر کے اعتبار سے اذان فجر کو پہلی اذان کہا گیا ہے۔
گویا اس اذان کی دو حیثیتیں ہیں:
سحری کی اذان کے مقابلے میں اسے اذان ثانی کہا جاتا ہے اور جماعت کے لیے اقامت کے اعتبار سے اسے اذان اولیٰ کہا گیا ہے، نیز بیہقی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اذان کے بعد مسجد میں تشریف لے جاتے، اگر مسجد میں نمازی کم ہوتے تو وہیں بیٹھ کر انتظار فرماتے، جب نمازی جمع ہوجاتے تو نماز پڑھاتے۔
یہ حدیث درج بالا حدیث کے مخالف نہیں، کیونکہ بیہقی کی روایت کا تعلق نماز صبح کے علاوہ دوسری نمازوں سے ہے اور حدیث بالا کا تعلق نماز صبح سے ہے۔
اور ممکن ہے آپ مؤذن کی اطلاع کے بعد مسجد میں تشریف لے جاتے ہوں اور وہاں جا کر نمازیوں کا انتظار فرماتے ہوں۔
(فتح الباري: 144/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 626