صحيح البخاري
كِتَاب الدَّعَوَاتِ -- کتاب: دعاؤں کے بیان میں
53. بَابُ الدُّعَاءِ لِلْمُتَزَوِّجِ:
باب: شادی کرنے والے دولہا کے لیے دعا دینا۔
حدیث نمبر: 6387
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: هَلَكَ أَبِي وَتَرَكَ سَبْعَ، أَوْ تِسْعَ بَنَاتٍ، فَتَزَوَّجْتُ امْرَأَةً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَزَوَّجْتَ يَا جَابِرُ"، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا"، قُلْتُ: ثَيِّبًا، قَالَ:" هَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ، أَوْ تُضَاحِكُهَا وَتُضَاحِكُكَ"، قُلْتُ: هَلَكَ أَبِي، فَتَرَكَ سَبْعَ أَوْ تِسْعَ بَنَاتٍ، فَكَرِهْتُ أَنْ أَجِيئَهُنَّ بِمِثْلِهِنَّ، فَتَزَوَّجْتُ امْرَأَةً تَقُومُ عَلَيْهِنَّ، قَالَ:" فَبَارَكَ اللَّهُ عَلَيْكَ"، لَمْ يَقُلْ ابْنُ عُيَيْنَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَمْرٍو: بَارَكَ اللَّهُ عَلَيْكَ.
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ میرے والد شہید ہوئے تو انہوں نے سات یا نو لڑکیاں چھوڑی تھیں (راوی کو تعداد میں شبہ تھا) پھر میں نے ایک عورت سے شادی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ جابر کیا تم نے شادی کر لی ہے؟ میں نے کہا جی ہاں۔ فرمایا کنواری سے یا بیوہ سے؟ میں نے کہا بیاہی سے۔ فرمایا، کسی لڑکی (کنواری) سے کیوں نہ کی۔ تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) تم اسے ہنساتے اور وہ تمہیں ہنساتی۔ میں نے عرض کی، میرے والد (عبداللہ) شہید ہوئے اور سات یا نو لڑکیاں چھوڑی ہیں۔ اس لیے میں نے پسند نہیں کیا کہ میں ان کے پاس انہی جیسی لڑکی لاؤں۔ چنانچہ میں نے ایسی عورت سے شادی کی جو ان کی نگرانی کر سکے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تمہیں برکت عطا فرمائے۔ ابن عیینہ اور محمد بن مسلمہ نے عمرو سے روایت میں اللہ تمہیں برکت عطا فرمائے کے الفاظ نہیں کہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1860  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت سے شادی کی، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا، تو آپ نے فرمایا: جابر! کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا: غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شادی کنواری سے کیوں نہیں کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے کودتے؟ میں نے کہا: میری کچھ بہنیں ہیں، تو میں ڈرا کہ کہیں کنواری لڑکی آ کر ان میں اور مجھ میں دوری کا سبب نہ بن جائے، آپ صلی اللہ علیہ و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1860]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
نکاح کے وقت تمام دوستوں اور رشتے داروں کا اجتماع ضروری نہیں۔

(2)
اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کے حالات معلوم کرنا اور ان کی ضرورتیں ممکن حد تک پوری کرنا اچھی عادت ہے۔

(3)
بیوہ یا مطلقہ سے نکاح کرنا عیب نہیں۔
حدیث میں «ثیب» کالفظ ہے جو بیوہ اور طلاق یافتہ عورت دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔

(4)
جوان آدمی کے لیے جوان عورت سے شادی کرنا بہتر ہےکیونکہ اس میں زیادہ ذہنی ہم آہنگی ہونے کی امید ہوتی ہے۔

(5)
حضرت جابر نے اپنی بہنوں کی تربیت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑی عمر کی خاتون سے نکاح کیا، اس لیے دوسروں کے فائدے کو سامنے رکھ کر اپنی پسند سے کم تر چیز پر اکتفا کرنا بہت اچھی خوبی ہے۔

(6)
کنبے کے سربراہ کو گھر کے افراد کا مفاد مقدم رکھنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1860   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 870  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک غزوہ میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب ہم مدینہ واپس پہنچ کر اپنے اپنے گھروں میں جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذرا ٹھہر جاؤ۔ رات کے وقت گھروں میں داخل ہونا، رات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عشاء کا وقت تھا، تاکہ پراگندہ بالوں والی اپنے بالوں میں کنگھی وغیرہ کر لے اور جس کا خاوند گھر سے باہر غائب تھا وہ اپنے جسم کے زائد بالوں کی صفائی کر لے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں ہے تم میں سے کوئی جب لمبی مدت کے بعد واپس آئے تو اچانک رات کے وقت گھر میں داخل نہ ہو۔ «بلوغ المرام/حدیث: 870»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب تزوج الثيبات، حديث:5079، ومسلم، الرضاع، باب استحباب نكاح البكر، حديث:715، بعد حديث:1466 /57.»
تشریح:
1. اس حدیث میں اس شخص کو‘ جو بہت دیر کے بعد گھر واپس لوٹا ہو‘ حکم ہے کہ وہ اچانک گھر آنے کی بجائے اپنی رہائش سے قریب کسی جگہ پر کچھ دیر ٹھہرے اور انتظار کرے اور اپنی آمد کی اطلاع اہل خانہ کو کرے تاکہ اس کی بیوی اپنی زیب و آرائش کر لے‘ اس لیے کہ جن عورتوں کے شوہر سفر پر یا باہر کسی علاقے میں ہوتے ہیں‘ وہ عموماً پراگندہ اور غیر مناسب حالت میں ہوتی ہیں۔
ممکن ہے کہ شوہر جب ایسی پراگندہ حالت میں اسے دیکھے تو اس سے نفرت پیدا ہوجائے۔
2. دور جدید میں ڈاک اور ٹیلیفون کے ذریعے سے پیشگی اطلاع دی جا سکتی ہے۔
یہ اطلاع مقصد پورا کر دیتی ہے‘ لہٰذا اب گھر کے قریب پہنچ کر ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 870   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1253  
´جانور بیچتے وقت اس پر سواری کی شرط لگا کر لینے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے (راستے میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اونٹ بیچا اور اپنے گھر والوں تک سوار ہو کر جانے کی شرط رکھی لگائی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1253]
اردو حاشہ: 1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ بیع میں اگرجائزشرط ہو تو بیع اورشرط دونوں درست ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1253   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2048  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے کیوں نہیں کی تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2048]
فوائد ومسائل:
کنواری لڑکی سے شادی زیادہ مرغوب ہے اور کنوارے میاں بیوی میں ہنسی کھیل فطرتاً اور بالعموم بہت زیادہ ہوتا ہے۔
بخلاف بیوہ کے یہ عمل نفسیاتی صحت کےلئے بہت عمدہ ہوتا ہے۔
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میاں بیوی میں لہو لعب جائز اور حق ہے۔
تاہم کچھ اور وجوہات سے بیوہ سے شادی کرنا بھی باعث فضیلت ہے۔
جیسا کہ نبی کریمﷺ کا عمل اس پر شاہد ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2048   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6387  
6387. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میرے والد شہید ہوئے تو انہوں نے سات یا بیٹیاں چھوڑی تھیں۔ پھر میں نے ایک عورت سے نکاح کیا تو نبی ﷺ نے پوچھا: اے جابر! کیا تو نے شادی کرلی ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: کنواری سے یا شوہر دیدہ سے؟ میں نے کہا: شوہر دیدہ عورت سے۔ آپ نے فرمایا: کسی کنواری سے نکاح کیوں نہیں کیا تو اس سے دل لگی کرتا اور وہ تجھ سے دل لگی کرتی؟ یا تو اسے ہنساتا اور وہ تجھے ہنساتی؟ میں نے کہا: میرے والد جب شہید ہوئے تو انہوں نے سات یا نو بیٹیاں چھوڑی تھیں اس لیے میں نے پسند نہیں کیا کہ ان کے ہاں ان جیسی کوئی ناتجربہ کار لے آؤں چنانچہ میں نے ایسی عورت سے نکاح کیا ہے جو ان کی دیکھ بھال کا اہتمام کرے۔ آپ نے دعا کی: اللہ تمہیں بھرپور برکت عطا فرمائے۔ ابن عینیہ اور محمد بن مسلم نے عمرو سے یہ روایت بیان کی تو اس میں باركَ اللہ علیكَ کے الفاظ نہیں کہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6387]
حدیث حاشیہ:
شادی میں بھی جذبات سے زیادہ دوراندیشی کی ضرورت ہے۔
حضرت جابر کا یہ واقعہ عبرت ونصیحت کے لئے کافی ہے۔
اللہ ہرمسلمان کو سمجھنے کی توفیق دے۔
اپنی بہنوں کی پرورش کرنا بھی ایک بڑی سعادت مندی ہے۔
اللہ ہر جوان کو ایسی توفیق بخشے آمین
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6387   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6387  
6387. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میرے والد شہید ہوئے تو انہوں نے سات یا بیٹیاں چھوڑی تھیں۔ پھر میں نے ایک عورت سے نکاح کیا تو نبی ﷺ نے پوچھا: اے جابر! کیا تو نے شادی کرلی ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: کنواری سے یا شوہر دیدہ سے؟ میں نے کہا: شوہر دیدہ عورت سے۔ آپ نے فرمایا: کسی کنواری سے نکاح کیوں نہیں کیا تو اس سے دل لگی کرتا اور وہ تجھ سے دل لگی کرتی؟ یا تو اسے ہنساتا اور وہ تجھے ہنساتی؟ میں نے کہا: میرے والد جب شہید ہوئے تو انہوں نے سات یا نو بیٹیاں چھوڑی تھیں اس لیے میں نے پسند نہیں کیا کہ ان کے ہاں ان جیسی کوئی ناتجربہ کار لے آؤں چنانچہ میں نے ایسی عورت سے نکاح کیا ہے جو ان کی دیکھ بھال کا اہتمام کرے۔ آپ نے دعا کی: اللہ تمہیں بھرپور برکت عطا فرمائے۔ ابن عینیہ اور محمد بن مسلم نے عمرو سے یہ روایت بیان کی تو اس میں باركَ اللہ علیكَ کے الفاظ نہیں کہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6387]
حدیث حاشیہ:
شادی کے موقع پر برکت کی دعا میں اشارہ ہے کہ شادی دونوں کے لیے باعث برکت ہو۔
روزی، آل و اولاد اور گھر بار سب میں برکت شامل حال ہو۔
شادی میں جذبات سے زیادہ دور اندیشی کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی بہنوں کی تربیت کی وجہ سے اپنے جذبات کی قربانی دی۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھرپور برکت کی دعا دیتے ہوئے فرمایا:
''بارك الله عليك'' جبکہ حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کو جو دعا دی ہے وہ صرف بیوی کے اعتبار سے برکت پر مشتمل ہے:
''بارك الله لك'' (فتح الباري: 228/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6387