صحيح البخاري
كِتَاب الدَّعَوَاتِ -- کتاب: دعاؤں کے بیان میں
60. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یوں دعا کرنا کہ ”اے اللہ! میرے اگلے اور پچھلے سب گناہ بخش دے“۔
حدیث نمبر: 6398
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ صَبَّاحٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَدْعُو بِهَذَا الدُّعَاءِ:" رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي، وَجَهْلِي وَإِسْرَافِي فِي أَمْرِي كُلِّهِ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطَايَايَ، وَعَمْدِي، وَجَهْلِي، وَهَزْلِي وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِي، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ، وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ، وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ، وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ"، وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، وَحَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِهِ.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک بن صباح نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے ابواسحاق نے، ان سے ابن ابی موسیٰ نے، ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کرتے تھے «رب اغفر لي خطيئتي وجهلي وإسرافي في أمري كله،‏‏‏‏ وما أنت أعلم به مني،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم اغفر لي خطاياى وعمدي وجهلي وهزلي،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكل ذلك عندي،‏‏‏‏ اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت،‏‏‏‏ أنت المقدم،‏‏‏‏ وأنت المؤخر،‏‏‏‏ وأنت على كل شىء قدير» میرے رب! میری خطا، میری نادانی اور تمام معاملات میں میرے حد سے تجاوز کرنے میں میری مغفرت فرما اور وہ گناہ بھی جن کو تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے۔ اے اللہ! میری مغفرت کر، میری خطاؤں میں، میرے بالا ارادہ اور بلا ارادہ کاموں میں اور میرے ہنسی مزاح کے کاموں میں اور یہ سب میری ہی طرف سے ہیں۔ اے اللہ! میری مغفرت کر ان کاموں میں جو میں کر چکا ہوں اور انہیں جو کروں گا اور جنہیں میں نے چھپایا اور جنہیں میں نے ظاہر کیا ہے، تو سب سے پہلے ہے اور تو ہی سب سے بعد میں ہے اور تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اور عبیداللہ بن معاذ (جو امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ ہیں) نے بیان کیا کہ ہم سے میرے والد نے بیان کیا کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے، ان سے ابوبردہ بن ابی موسیٰ نے اور ان سے ان کے والد نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1354  
´ذکر اور دعا کا بیان`
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے «اللهم اغفر لي خطيئتي وجهلي وإسرافي في أمري وما أنت أعلم به مني اللهم اغفر لي جدي وهزلي وخطئي وعمدي وكل ذلك عندي اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أنت أعلم به مني أنت المقدم وأنت المؤخر وأنت على كل شيء قدير» ‏‏‏‏ الٰہی! میری خطا معاف فرما دے۔ نیز میری نادانی و جہالت کے کاموں کو بخش دے۔ میرے کام میں مجھ سے جو زیادتیاں سرزد ہوئیں ان کو بھی اور جو کچھ میرے بارے میں تیرے علم میں ہے ان سب کو بھی معاف فرما دے۔ اے اللہ! مجھ سے ارادۃ یا غیر ارادی طور پر جو کچھ صادر ہوا اس کی مغفرت فرما دے۔ خواہ وہ میرے لغزش ہو یا ارادے سے ہو یہ سب میرے ہی جانب سے ہوا ہے۔ اے اللہ! جو کچھ میں کر چکا ہوں یا جو آئندہ کروں گا اور جو میرا پوشیدہ ہے یا جو مجھ سے ظاہر ہوا ہے اور جو کچھ بھی میرے متعلق تیرے علم میں ہے وہ سب بخش دے۔ تو ہی پہلے ہے اور تو ہی بعد میں اور تو ہی ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (بخاری و مسلم)۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 1354»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الدعوات، باب قول النبي صلي الله عليه وسلم: ((اللّٰهم! اغفرلي...))، حديث:6398، ومسلم، الذكر والدعاء، باب التعوذ من شر ما عمل...، حديث:2719.»
تشریح:
1.اس قسم کی جتنی دعائیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں یہ آپ نے امتثال امر کے لیے مانگی ہیں کیونکہ آپ تو معصوم عن الخطا تھے‘ یا امت کو تعلیم دینے کی غرض سے مانگی ہیں۔
2.بعض روایات میں ہے کہ یہ دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشہد کے آخر میں پڑھتے اور بعض میں ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد۔
عین ممکن ہے کہ دونوں طرح آپ نے یہ دعا پڑھی ہو‘ کبھی سلام سے پہلے کبھی سلام کے بعد۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1354   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6398  
6398. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ! میری خطائیں میری نادانی اور تمام معاملات میں میرے حد سے تجاوز کو معاف کر دے۔ اور وہ گناہ بھی جنہیں تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے اے اللہ! میری خطائیں اور گناہ میں نے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کیے ہیں نیز جو گناہ میں نے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کیے ہیں۔ نیز وہ گناہ میں نے سنجیدگی میں کیے ہیں انہیں معاف کر دے۔ یہ سب میری ہی طرف سے ہیں اے اللہ! میرے گناہ بخش دے جو پہلے کر چکا ہوں یا آئندہ کروں گا اور جنہیں میں نے چھپایا ہے اور جنہیں میں نے علانیہ کیا ہے تو ہی سب سے پہلے ہے اور تو ہی سب سے آخر میں ہے۔ اور تو ہر چیز پر خوب قدرت رکھنے والا ہے۔ عبید اللہ بن معاذ نے کہا: مجھے میرے باپ نے بیان کیا ہے، ان سے شعبہ نے ان سے ابو اسحاق نے ان سے ابو بردہ نے ان سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6398]
حدیث حاشیہ:
دعا کے آخر میں لفظ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ فرمانا اس چیز کا اظہار ہے کہ اللہ پاک ہر چیز پر قادر ہے وہ جو چاہے کر سکتا ہے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے یہی استغناء الٰہی تو وہ چیز ہے جس سے بڑے بڑے پیغمبر اورمقرب بندے بھی تھراتے ہیں اور رات دن بڑی عاجزی کے ساتھ اپنے قصوروں کا اقرار اور اعتراف کرتے رہتے ہیں اگر ذرا بھی انانیت کسی کے دل میں آئی تو پھر کہیں ٹھکانا نہ رہا۔
حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منبری رحمۃ اللہ علیہ اپنی مکاتیب میں فرماتے ہیں وہ پاک پروردگار ایسا مستغنی اور بے پرواہ ہے کہ اگر چاہے تو ہر روز حضرت ابراہیم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح لاکھوں آدمیوں کو پیدا کر دے اور اگر چاہے تو دم بھر میں جتنے مقرب بندے ہیں ان سب کو راندئہ درگاہ بنا دے۔
جل جلالہ۔
یہاں مشیت کا ذکر ہو رہا ہے، مشیت اور چیز ہے اورقانون اورچیز ہے۔
قوانین الٰہی کے بارے میں صاف ارشاد ہے۔
﴿فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا﴾ (فاطر: 43)
صدق اللہ تبارك وتعالیٰ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6398