صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
18. بَابُ الأَذَانِ لِلْمُسَافِرِ إِذَا كَانُوا جَمَاعَةً، وَالإِقَامَةِ، وَكَذَلِكَ بِعَرَفَةَ وَجَمْعٍ:
باب: اگر کئی مسافر ہوں تو نماز کے لیے اذان دیں اور تکبیر بھی کہیں اور عرفات اور مزدلفہ میں بھی ایسا ہی کریں۔
حدیث نمبر: 633
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْعُمَيْسِ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْأَبْطَحِ، فَجَاءَهُ بِلَالٌ فَآذَنَهُ بِالصَّلَاةِ، ثُمَّ خَرَجَ بِلَالٌ بِالْعَنَزَةِ حَتَّى رَكَزَهَا بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْأَبْطَحِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ".
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں جعفر بن عون نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوالعمیس نے بیان کیا، انہوں نے عون بن ابی حجیفہ سے ابوحجیفہ کے واسطہ سے بیان کیا، کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابطح میں دیکھا کہ بلال حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی خبر دی پھر بلال رضی اللہ عنہ برچھی لے کر آگے بڑھے اور اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (بطور سترہ) مقام ابطح میں گاڑ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کو سترہ بنا کر) نماز پڑھائی۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 137  
´وضو کے بچے ہوئے پانی کو کام میں لانے کا بیان۔`
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بطحاء میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کے وضو کا پانی (جو برتن میں بچا تھا) نکالا، تو لوگ اسے لینے کے لیے جھپٹے، میں نے بھی اس میں سے کچھ لیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لکڑی نصب کی، تو آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور آپ کے سامنے سے گدھے، کتے اور عورتیں گزر رہی تھیں۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 137]
137۔ اردو حاشیہ:
➊ امام صاحب مذکورہ روایت اس باب کے تحت لا کر یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ ماء مستعمل پاک ہے اور اسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ماء مستعمل کی بابت مزید تفصیل کے لیے کتاب المیاہ کا ابتدائیہ دیکھیے۔
➋ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت تھی جس کا اظہار اس حدیث سے بھی ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم آپ کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو اپنے جسم وغیرہ پر بطور تبرک ملتے تھے۔ یہ صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے کیونکہ آپ کے بعد قرون اولیٰ میں سے کسی سے بھی یہ نہیں ملتاکہ کسی نے کسی صحابی یا تابعی سے بطور تبرک یہ عمل کیا ہو۔
➌ سترے کے آگے سے کسی چیز کا گزرنا نماز کے لیے نقصان دہ نہیں، سترے کے بغیر مذکورہ چیزوں کا گزرنا نقصان دہ ہے، اس لیے سترے کا اہتمام کرنا نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور مذکورہ چیزوں سے بچاؤ کا ایک عمدہ تحفظ بھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 137   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 773  
´سرخ کپڑوں میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سرخ جوڑے میں نکلے، اور آپ نے اپنے سامنے ایک برچھی گاڑی، پھر اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، اور اس کے پیچھے سے کتے، عورتیں اور گدھے گزرتے رہے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 773]
773 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ابن قیم رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق وہ حلہ خالص سرخ نہ تھا بلکہ اس میں سرخ دھاریاں تھیں، سطح سفید تھی۔ دیکھیے: [زاد المعاد: 137/1]
لہٰذا اس روایت کا ان روایات سے تعارض نہ ہو گا جن میں سرخ کپڑا پہننے سے روکا گیا ہے۔
➋ حلے سے مراد ہے، دو چادریں ایک رنگ کی اور ایک جیسی۔ ایک ازار اور دوسری ردا۔
➌ برچھایا چھوٹا نیزہ بطور سترہ گاڑا گیا تھا۔ اس کی بحث حدیث 748 میں گزر چکی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 773   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 688  
´نمازی کے سترہ کا بیان۔`
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بطحاء میں ظہر اور عصر کی دو دو رکعتیں پڑھائیں اور آپ کے سامنے برچھی (بطور سترہ) تھی، اور برچھی کے پیچھے سے عورتیں اور گدھے گزرتے تھے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب السترة /حدیث: 688]
688۔ اردو حاشیہ:
➊ امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہے۔
➋ سترے کے آگے سے کوئی بھی گزرے تو اس میں نمازی کا نقصان نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 688   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 197  
´اذان کے وقت شہادت کی دونوں انگلیاں دونوں کانوں میں داخل کرنے کا بیان۔`
ابوجحیفہ (وہب بن عبداللہ) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے بلال کو اذان دیتے دیکھا، وہ گھوم رہے تھے ۱؎ اپنا چہرہ ادھر اور ادھر پھیر رہے تھے اور ان کی انگلیاں ان کے دونوں کانوں میں تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سرخ خیمے میں تھے، وہ چمڑے کا تھا، بلال آپ کے سامنے سے نیزہ لے کر نکلے اور اسے بطحاء (میدان) میں گاڑ دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھائی۔ اس نیزے کے آگے سے ۲؎ کتے اور گدھے گزر رہے تھے۔ آپ ایک سرخ چادر پہنے ہوئے تھے، میں گویا آپ کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ رہا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 197]
اردو حاشہ:
1؎:
قیس بن ربیع کی روایت میں جو عون ہی سے مروی ہے یوں ہے ((فَلَمَّا بَلَغَ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ،
حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ لَوَى عُنُقَهُ يَمِينًا وَشِمَالًا وَلَمْ يَسْتَدِرْ)
)
 یعنی:
بلال جب حي الصلاة حي على الفلاح پر پہنچے تو اپنی گردن دائیں بائیں گھمائی اور خود نہیں گھومے دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ جنہوں نے گھومنے کا اثبات کیا ہے انہوں نے اس سے مراد سر کا گھومنا لیا ہے اور جنہوں نے اس کی نفی کی ہے انہوں نے پورے جسم کے گھومنے کی نفی کی ہے۔

2؎:
یعنی نیزہ اور قبلہ کے درمیان سے نہ کہ آپ کے اور نیز ے کے درمیان سے کیونکہ عمر بن ابی زائدہ کی روایت میں  ((وَرَأَيْتُ النَّاسَ وَالدَّوَابَّ يَمُرُّونَ بَيْنَ يَدَيْ الْعَنَزَةِ)) ہے،
میں نے دیکھا کہ لوگ اور جانور نیزہ کے آگے سے گزر رہے تھے۔

3؎:
اس پر سنت سے کوئی دلیل نہیں،
رہا اسے اذان پر قیاس کرنا تو یہ قیاس مع الفارق ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 197   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 633  
633. حضرت ابوجحیفہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو وادی ابطح میں دیکھا کہ آپ کے پاس حضرت بلال ؓ آئے اور آپ کو نماز کی اطلاع دی، پھر نیزہ لے کر چلے گئے تا آنکہ اسے رسول اللہ ﷺ کے سامنے وادی ابطح میں گاڑ دیا، پھر انہوں نے نماز کے لیے تکبیر کہی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:633]
حدیث حاشیہ:
ابطح مکہ سے کچھ فاصلہ پر ایک مشہورمقام ہے۔
جہاں آپ ﷺ نے حالت سفر میں جماعت سے نماز پڑھائی۔
پس حدیث اورباب میں مطابقت ظاہر ہے۔
یہ بھی ثابت ہواکہ اگر ضرورت ہو تومؤذن امام کوگھر سے بلاکر لاسکتے ہیں اور یہ بھی کہ جنگل میں سترہ کا انتظام ضروری ہے۔
اس کا اہتمام مؤذن کو کرنا ہے۔
عنزہ وہ لکڑی جس کے نیچے لوہے کا پھل لگا ہوا ہو، اسے زمین میں با آسانی گاڑا جا سکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 633   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:633  
633. حضرت ابوجحیفہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو وادی ابطح میں دیکھا کہ آپ کے پاس حضرت بلال ؓ آئے اور آپ کو نماز کی اطلاع دی، پھر نیزہ لے کر چلے گئے تا آنکہ اسے رسول اللہ ﷺ کے سامنے وادی ابطح میں گاڑ دیا، پھر انہوں نے نماز کے لیے تکبیر کہی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:633]
حدیث حاشیہ:
وادئ ابطح مکے سے باہر ایک مشہور مقام ہے۔
چونکہ امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان میں میدان عرفات اور مزدلفہ کا ذکر کیا تھا، اس مناسبت سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ وادی مزدلفہ میں واقع ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ وادئ ابطح اور مزدلفہ کے درمیان کا فی مسافت ہے۔
امام بخاری ؒ کا مقصد اس حدیث سے دوران سفر میں اذان اور تکبیر کی مشروعیت کو ثابت کرنا ہے۔
(فتح الباري: 150/2)
البتہ امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان میں میدان عرفات اور مزدلفہ کا ذکر کرکے شاید اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جسے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب میدان عرفات میں نماز ظہر اور عصر کو جمع فرمایا تھا تو اس وقت حضرت بلال ؓ نے اذان اور اقامت کہی تھی۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950(1218)
اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے مزدلفہ میں نماز مغرب اذان اور اقامت کے ساتھ پڑھی، پھر نماز عشاء کےلیے بھی اذان اور اقامت کہنے کا اہتمام کیا، پھر فرمایا:
میں نے رسول اللہ ﷺ کر ایسا کرتے دیکھا ہے۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1675)
لیکن احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ میں ایک اذان اور دودفعہ اقامت کے ساتھ نماز مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھا تھا۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 633