صحيح البخاري
كِتَاب الرِّقَاقِ -- کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
11. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَذَا الْمَالُ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ یہ (دنیا کا) مال سرسبز میٹھا ہے۔
وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا}. قَالَ عُمَرُ اللَّهُمَّ إِنَّا لاَ نَسْتَطِيعُ إِلاَّ أَنْ نَفْرَحَ بِمَا زَيَّنْتَهُ لَنَا، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ أَنْ أُنْفِقَهُ فِي حَقِّهِ.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ آل عمران میں) فرمایا «زين للناس حب الشهوات من النساء والبنين والقناطير المقنطرة من الذهب والفضة والخيل المسومة والأنعام والحرث ذلك متاع الحياة الدنيا‏» انسانوں کو خواہشات کی تڑپ، عورتوں، بال، بچوں ڈھیروں سونے چاندی، نشان لگے ہوئے گھوڑوں اور چوپایوں کھیتوں میں محبوب بنا دی گئی ہے، یہ چند روزہ زندگانی کا سرمایہ ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے اللہ! ہم تو سوا اس کے کچھ طاقت ہی نہیں رکھتے کہ جس چیز سے تو نے ہمیں زینت بخشی ہے اس پر ہم طبعی طور پر خوش ہوں۔ اے اللہ! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ اس مال کو تو حق جگہ پر خرچ کروانا۔
حدیث نمبر: 6441
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، وَسَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ: هَذَا الْمَالُ، وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: قَالَ لِي:" يَا حَكِيمُ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِطِيبِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زہری سے سنا، وہ کہتے تھے کہ مجھے عروہ اور سعید بن مسیب نے خبر دی، انہیں حکیم بن حزام نے، کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عطا فرمایا۔ میں نے پھر مانگا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر عطا فرمایا۔ میں نے پھر مانگا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر عطا فرمایا۔ پھر فرمایا کہ یہ مال۔ اور بعض اوقات سفیان نے یوں بیان کیا کہ (حکیم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا) اے حکیم! یہ مال سرسبز اور خوشگوار نظر آتا ہے پس جو شخص اسے نیک نیتی سے لے اس میں برکت ہوتی ہے اور جو لالچ کے ساتھ لیتا ہے تو اس کے مال میں برکت نہیں ہوتی بلکہ وہ اس شخص جیسا ہو جاتا ہے جو کھاتا جاتا ہے لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا اور اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6441  
6441. حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دیا۔ میں نے پھر سوال کیا تو آپ نے دیا۔ میں نے تیسری مرتبہ مانگا تو آپ ﷺ نے عطا کیا، پھر فرمایا: اے حکیم! دنیا کا یہ مال شیریں اور ہرابھرا (خوشگوار) نظر آتا ہے، لہذا جو شخص اسے نیک نیتی سے حرص کے بغیر لے گا، اس کے لیے اس میں برکت ہوگی اور جو اسے لالچ اور طمع کے ساتھ لے گا، اس کے لیے اس میں برکت نہیں ہوگی، بلکہ وہ اس شخص کی طرح ہو جاتا ہے، جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6441]
حدیث حاشیہ:
اوپر کا ہاتھ سخی کا ہاتھ اور نیچے کا ہاتھ صدقہ خیرات لینے والے کا ہاتھ ہے۔
سخی کا درجہ بہت اونچا ہے اورلینے والے کا نیچا۔
مگر آیت کریمہ ﴿لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى﴾ (البقرة: 264)
کے تحت معطی کا فرض ہے کہ دینے والے کو حقیر نہ جانے اس پر احسان نہ جتلائے نہ اور کچھ ذھنی تکلیف دے ورنہ اس کے صدقہ کا ثواب ضائع ہو جائے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6441   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6441  
6441. حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دیا۔ میں نے پھر سوال کیا تو آپ نے دیا۔ میں نے تیسری مرتبہ مانگا تو آپ ﷺ نے عطا کیا، پھر فرمایا: اے حکیم! دنیا کا یہ مال شیریں اور ہرابھرا (خوشگوار) نظر آتا ہے، لہذا جو شخص اسے نیک نیتی سے حرص کے بغیر لے گا، اس کے لیے اس میں برکت ہوگی اور جو اسے لالچ اور طمع کے ساتھ لے گا، اس کے لیے اس میں برکت نہیں ہوگی، بلکہ وہ اس شخص کی طرح ہو جاتا ہے، جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6441]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں دنیا کے متعلق حرص، طمع اور لالچ سے خبردار کیا ہے کہ اس نیت سے جو مال حاصل ہو گا، اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر و برکت نہیں ہو گی بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کو اس قسم کی طمع و لالچ سے بچاتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو دنیا سے اسے اس طرح محفوظ رکھتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے مریض کو پانی سے پرہیز کراتا ہے جبکہ اسے پانی سے نقصان کا اندیشہ ہو۔
(مسند أحمد: 428/5) (2)
دراصل دنیا کی مال داری وہی بری ہے جو اللہ تعالیٰ سے غافل کر دے اور جس میں مشغول ہونے سے انسان کی آخرت کا راستہ کھوٹا ہو جائے، اس لیے اللہ تعالیٰ کو جن لوگوں سے محبت ہوتی ہے انہیں اس طرح مال سمیٹنے سے بچاتا ہے جس طرح ہم اپنے مریضوں کو پانی سے پرہیز کراتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6441