صحيح البخاري
كِتَاب الرِّقَاقِ -- کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
25. بَابُ الْخَوْفِ مِنَ اللَّهِ:
باب: اللہ سے ڈرنے کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 6481
حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، سَمِعْتُ أَبِي، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَبْدِ الْغَافِرِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ذَكَرَ رَجُلًا فِيمَنْ كَانَ سَلَفَ أَوْ قَبْلَكُمْ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا وَوَلَدًا يَعْنِي أَعْطَاهُ، قَالَ: فَلَمَّا حُضِرَ، قَالَ لِبَنِيهِ: أَيَّ أَبٍ كُنْتُ لَكُمْ، قَالُوا: خَيْرَ أَبٍ، قَالَ: فَإِنَّهُ لَمْ يَبْتَئِرْ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرًا، فَسَّرَهَا قَتَادَةُ: لَمْ يَدَّخِرْ وَإِنْ يَقْدَمْ عَلَى اللَّهِ يُعَذِّبْهُ، فَانْظُرُوا فَإِذَا مُتُّ، فَأَحْرِقُونِي حَتَّى إِذَا صِرْتُ فَحْمًا، فَاسْحَقُونِي أَوْ قَالَ: فَاسْهَكُونِي، ثُمَّ إِذَا كَانَ رِيحٌ عَاصِفٌ فَأَذْرُونِي فِيهَا، فَأَخَذَ مَوَاثِيقَهُمْ عَلَى ذَلِكَ وَرَبِّي، فَفَعَلُوا، فَقَالَ اللَّهُ: كُنْ، فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ، ثُمَّ قَالَ: أَيْ عَبْدِي، مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ، قَالَ: مَخَافَتُكَ أَوْ فَرَقٌ مِنْكَ فَمَا تَلَافَاهُ أَنْ رَحِمَهُ اللَّهُ"، فَحَدَّثْتُ أَبَا عُثْمَانَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ سَلْمَانَ غَيْرَ أَنَّهُ زَادَ: فَأَذْرُونِي فِي الْبَحْرِ أَوْ كَمَا حَدَّثَ، وَقَالَ مُعَاذٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، سَمِعْتُ عُقْبَةَ، سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا، کہا میں نے اپنے والد سے سنا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے عقبہ بن عبدالغافر نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھلی امتوں کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مال و اولاد عطا فرمائی تھی۔ فرمایا کہ جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے لڑکوں سے پوچھا، باپ کی حیثیت سے میں نے کیسا اپنے آپ کو ثابت کیا؟ لڑکوں نے کہا کہ بہترین باپ۔ پھر اس شخص نے کہا کہ اس نے اللہ کے پاس کوئی نیکی نہیں جمع کی ہے۔ قتادہ نے «لم يبتئر» کی تفسیر «لم يدخر» کہ نہیں جمع کی، سے کی ہے۔ اور اس نے یہ بھی کہا کہ اگر اسے اللہ کے حضور میں پیش کیا گیا تو اللہ تعالیٰ اسے عذاب دے گا (اس نے اپنے لڑکوں سے کہا کہ) دیکھو، جب میں مر جاؤں تو میری لاش کو جلا دینا اور جب میں کوئلہ ہو جاؤں تو مجھے پیس دینا اور کسی تیز ہوا کے دن مجھے اس میں اڑا دینا۔ اس نے اپنے لڑکوں سے اس پر وعدہ لیا چنانچہ لڑکوں نے اس کے ساتھ ایسا ہی کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہو جا۔ چنانچہ وہ ایک مرد کی شکل میں کھڑا نظر آیا۔ پھر فرمایا، میرے بندے! یہ جو تو نے کرایا ہے اس پر تجھے کس چیز نے آمادہ کیا تھا؟ اس نے کہا کہ تیرے خوف نے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا بدلہ یہ دیا کہ اس پر رحم فرمایا۔ میں نے یہ حدیث عثمان سے بیان کی تو انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سلمان سے سنا۔ البتہ انہوں نے یہ لفظ بیان کیے کہ مجھے دریا میں بہا دینا یا جیسا کہ انہوں نے بیان کیا اور معاذ نے بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، انہوں نے عقبہ سے سنا، انہوں نے ابوسعید رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6481  
6481. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے سابقہ امتوں میں سے ایک کا ذکر کیا۔ اللہ تعالٰی نے اسے مال و اولاد عطا فرمائی تھی۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا: میں تمہارا کیسا باپ ہوں؟ انہوں نے کہا: آپ ہمارے اچھے باپ ہیں۔ اس نے کہا: تہمارے اس باپ نے اللہ کے ہاں کوئی نیکی جمع نہیں کی ہے اگر اسے اللہ کے حضور پیش کیا گیا تو وہ اسے ضرور عذاب دے گا۔ اب میرا خیال رکھو، جب میں مر جاؤں تو میری لاش کو جلا دینا یہاں تک کہ میں کوئلہ بن جاؤں تو مجھے پیس کر کسی (تیز ہوا آندھی) والے دن مجھے اس میں اڑا دینا۔ اس نے اپنے لڑکوں سے اس کا پختہ وعدہ لیا۔ قسم ہے میرے رب کی! اس کے بیٹوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر اللہ تعالٰی نے فرمایا: ہوجا تو وہ آدمی کی شکل میں کھڑا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے میرے بندے! تجھے اس کام پر کس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6481]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ وہ شخص کفن چور تھا۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3452)
اس نے یہ فعل اس لیے کیا کہ اگر اسے اصل حالت میں دفن کر دیا گیا تو قیامت کے دن اٹھتے وقت لوگ اسے پہچان لیں گے، لہذا جب وہ جل کر راکھ ہو گیا، پھر اسے پانی میں بہا دیا گیا یا ہوا میں اڑا دیا گیا تو لوگ اسے پہچان نہیں سکیں گے لیکن وہ بے چارہ اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کی صفات سے بھی ناواقف تھا اور اس کے اعمال بھی اچھے نہ تھے لیکن مرنے سے پہلے اس پر خوف الٰہی اس قدر طاری ہوا کہ اس نے اپنے بیٹوں کو ایک جاہلانہ وصیت کر دی۔
وہ یہ سمجھا کہ میری راکھ کے اس طرح خشکی اور تری میں منتشر ہونے کے بعد میرے دوبارہ زندہ ہونے کا کوئی امکان نہیں رہے گا۔
لیکن جاہلانہ غلطی کا منشا اور سبب چونکہ خوف الٰہی اور اس کے عذاب کا ڈر تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کر دیا۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے خوف الٰہی کی قدروقیمت کو ثابت کیا ہے کہ خوف الٰہی کی وجہ سے اس جاہل کو بھی معاف کر دیا گیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6481