صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
24. بَابُ هَلْ يَخْرُجُ مِنَ الْمَسْجِدِ لِعِلَّةٍ:
باب: کیا مسجد سے کسی ضرورت کی وجہ سے اذان یا اقامت کے بعد بھی کوئی شخص نکل سکتا ہے؟
حدیث نمبر: 639
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ وَقَدْ أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ وَعُدِّلَتِ الصُّفُوفُ، حَتَّى إِذَا قَامَ فِي مُصَلَّاهُ انْتَظَرْنَا أَنْ يُكَبِّرَ انْصَرَفَ، قَالَ: عَلَى مَكَانِكُمْ، فَمَكَثْنَا عَلَى هَيْئَتِنَا حَتَّى خَرَجَ إِلَيْنَا يَنْطِفُ رَأْسُهُ مَاءً، وَقَدِ اغْتَسَلَ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، وہ صالح بن کیسان سے، وہ ابن شہاب سے، وہ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک دن حجرے سے) باہر تشریف لائے، اقامت کہی جا چکی تھی اور صفیں برابر کی جا چکی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مصلے پر کھڑے ہوئے تو ہم انتظار کر رہے تھے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کہتے ہیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو۔ ہم اسی حالت میں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ تشریف لائے، تو سر مبارک سے پانی ٹپک رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا تھا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 235  
´جنبی بھول کر نماز پڑھانے کے لیے کھڑا ہو جائے تو کیا کرے؟`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ وَصَفَّ النَّاسُ صفوفهم، فخرج: " أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا قَامَ فِي مَقَامِهِ، ذَكَرَ أَنَّهُ لَمْ يَغْتَسِلْ، فَقَالَ لِلنَّاسِ: مَكَانَكُمْ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى بَيْتِهِ، فَخَرَجَ عَلَيْنَا يَنْطُفُ رَأْسُهُ وَقَدِ اغْتَسَلَ، وَنَحْنُ صُفُوفٌ "، وَهَذَا لَفْظُ ابْنُ حَرْبٍ، وَقَالَ عَيَّاشٌ فِي حَدِيثِهِ: فَلَمْ نَزَلْ قِيَامًا نَنْتَظِرُهُ حَتَّى خَرَجَ عَلَيْنَا وَقَدِ اغْتَسَلَ . . . .»
. . . ´ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` (ایک مرتبہ) نماز کے لیے اقامت ہو گئی اور لوگوں نے صفیں باندھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے، یہاں تک کہ جب اپنی جگہ پر (آ کر) کھڑے ہو گئے، تو آپ کو یاد آیا کہ آپ نے غسل نہیں کیا ہے، آپ نے لوگوں سے کہا: تم سب اپنی جگہ پر رہو، پھر آپ گھر واپس گئے اور ہمارے پاس (واپس) آئے، تو آپ کے سر مبارک سے پانی ٹپک رہا تھا اور حال یہ تھا کہ آپ نے غسل کر رکھا تھا اور ہم صف باندھے کھڑے تھے۔ یہ ابن حرب کے الفاظ ہیں، عیاش نے اپنی روایت میں کہا ہے: ہم لوگ اسی طرح (صف باندھے) کھڑے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ ہمارے پاس تشریف لائے، آپ غسل کئے ہوئے تھے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/باب فِي الْجُنُبِ يُصَلِّي بِالْقَوْمِ وَهُوَ نَاسٍ: 235]
فوائد و مسائل:
➊ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احکام شریعت کے اسی طرح پابند تھے جیسے کہ باقی افراد امت، سوائے ان امور کے جن میں آپ کو خصوصیت دی گئی تھی۔
➋ جسے مسجد میں جنابت لاحق ہو جائے (احتلام ہو جائے) اس کے لیے ضروری نہیں کہ تیمم کر کے باہر نکلے جیسے کہ بعض کا خیال ہے۔
➌ اقامت اور تکبیر میں کسی معقول سبب سے فاصلہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں، دوبارہ اقامت کہنے کی ضرورت نہیں۔
➍ مقتدیوں کو چاہئیے کہ اپنے مقرر امام کا انتظار کریں، اگر کھڑے بھی رہیں تو جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 235   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 793  
´نمازی پر کھڑے ہو جانے کے بعد امام کو یاد آئے کہ مجھ کو نہانے کی حاجت ہے تو کیا کرے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز کے لیے اقامت کہی گئی، تو لوگوں نے اپنی صفیں درست کیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجرے سے نکل کر نماز پڑھنے کی جگہ پر آ کر کھڑے ہوئے، پھر آپ کو یاد آیا کہ غسل نہیں کیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: تم اپنی جگہوں پر رہو، پھر آپ واپس اپنے گھر گئے پھر نکل کر ہمارے پاس آئے، اور آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، اور ہم صف باندھے کھڑے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 793]
793۔ اردو حاشیہ: ایسا واقعہ کبھی کبھار ہو سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ آج کل بھی امام لوگوں کو صفوں میں کھڑا کر کے نہانے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہی اور تھی۔ آپ کے انتظار میں تو لوگ آدھی آدھی رات تک بیٹھے رہتے تھے۔ اگر ایسی صورت حال پیدا ہو جائے تو امام اپنی جگہ کسی کو کھڑا کر کے جماعت شروع کروائے اور خود چلا جائے۔ «أَنزِلوا الناسَ مَنازلَهم» یعنی ہر شخص کے ساتھ اس کے مقام و مرتبہ کے مطابق پیش آنا چاہیے۔ بالفرض اگر کسی امام کے مقتدی بخوشی اس کا انتظار کریں یا کوئی اور جماعت کے قابل نہ ہو تو مندرجہ بالا صورت پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 793   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 810  
´امام کے نکلنے سے پہلے صفوں کی درستگی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو ہم کھڑے ہوئے، اور صفیں اس سے پہلے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف نکلیں درست کر لی گئیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے یہاں تک کہ جب آپ اپنی نماز پڑھانے کی جگہ پر آ کر کھڑے ہو گئے تو اس سے پہلے کہ کے آپ تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہیں ہماری طرف پلٹے، اور فرمایا: تم لوگ اپنی جگہوں پہ رہو، تو ہم برابر کھڑے آپ کا انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ آپ ہماری طرف آئے، آپ غسل کئے ہوئے تھے، اور آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، تو آپ نے تکبیر (تحریمہ) کہی، اور صلاۃ پڑھائی۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 810]
810 ۔ اردو حاشیہ: اگرچہ امام کو دیکھ کر کھڑے ہونا چاہیے مگر اتنی دیر پہلے بھی کھڑے ہو سکتے ہیں کہ امام صاحب کے آنے تک صفیں سیدھی ہوسکیں۔ [مزيد فوائد كے ليے ديكهيے: 793]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 810   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1220  
´نماز پر بنا کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے نکلے اور آپ نے «الله أكبر» کہا، پھر لوگوں کو اشارہ کیا کہ وہ اپنی جگہ ٹھہرے رہیں، لوگ ٹھہرے رہے، پھر آپ گھر گئے اور غسل کر کے آئے، آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، پھر آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: میں تمہارے پاس جنابت کی حالت میں نکل آیا تھا، اور غسل کرنا بھول گیا تھا یہاں تک کہ نماز کے لیے کھڑا ہو گیا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1220]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امام کے سہو سے مقتدیوں کی نماز خراب نہیں ہوتی۔
نبی اکرمﷺ نے بھول کر جنابت کی حالت میں تکبیر تحریمہ کہی لیکن مقتدیوں کی تکبیر تحریمہ درست تھی۔
اس لئے رسول اللہ ﷺ نے انہیں نماز کی حالت میں کھڑے رہنے کا اشارہ فرما دیا۔

(2)
اس حدیث سے بِنَا کا مسئلہ ثابت ہوسکتا ہے۔
کہ اگر نبی اکرم ﷺنے تکبیر تحریمہ دوبارہ نہ کہی ہو لیکن اس میں یہ اشکال ہے کہ حالت جنابت میں کہی ہوئی تکبیر تحریمہ کو درست ماننا پڑے گا۔
اس لئے نبی اکرم ﷺنے تکبیر تحریمہ یقیناً دوبارہ کہی ہوگی۔
اور اس صورت میں بناء کا مسئلہ ثابت نہیں ہوتا۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1220   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 639  
639. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ اس وقت گھر سے باہر تشریف لائے جب نماز کے لیے اقامت ہو چکی تھی اور صفیں بھی درست کر لی گئی تھیں حتی کہ جب آپ ﷺ مصلے پر کھڑے ہو گئے تو ہم آپ کے اللہ اکبر کہنے کا انتظار کرنے لگے، لیکن آپ نے ہم سے فرمایا: تم اپنی اپنی جگہ پر کھڑے رہو۔ اور خود واپس تشریف لے گئے، چنانچہ ہم سب اپنی اپنی جگہ پر کھڑے رہے یہاں تک کہ آپ تھوڑی دیر بعد جب ہمارے پاس دوبارہ تشریف لائے تو آپ کے سر پر پانی ٹپک رہا تھا کیونکہ آپ نے غسل فرمایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:639]
حدیث حاشیہ:
آپ ﷺ حالت جنابت میں تھے مگر یاد نہ رہنے کی وجہ سے تشریف لے آئے۔
بعد میں معلوم ہوگیا تو واپس تشریف لے گئے۔
اس حدیث سے حضرت امام بخاری قدس سرہ نے یہ مسئلہ ثابت کیا کہ کوئی ایسی ہی سخت ضرورت پیش آجائے، تو اذان و تکبیر کے بعد بھی آدمی مسجد سے باہر نکل سکتا ہے۔
جس حدیث میں ممانعت آئی ہے وہاں محض بلاوجہ نفسانی خواہش کے باہر نکلنا مراد ہے۔
ممانعت والی حدیث صحیح مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے اورمسنداحمد میں بھی ہے۔
ان احادیث کو نقل کرنے کے بعد حضرت علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں:
والحدیثان یدلان علی تحریم الخروج من المسجد بعد سماع الأذان لغیر الوضوء وقضاءالحاجة وماتدعوا الضرورة إلیه حتی یصلی فیه تلك الصلوٰة لأن ذلك المسجد قد تعین لتلك الصلوٰة۔
(نیل الأوطار)
یعنی مسجد سے اذان سننے کے بعد نکلنا حرام ہے۔
مگروضو یاقضائے حاجت یا اورکوئی ضروری کام ہو تواجازت ہے ورنہ جس مسجد میں رہتے ہوئے اذان سن لی اب اسی مسجد میں نماز کی ادائیگی لازم ہے کیونکہ اس نماز کے لیے وہی مسجد متعین ہوچکی ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ احکام شریعت وطریقہ عبادت میں نسیان ہوسکتاہے تاکہ وہ وحی آسمانی کے مطابق اس نسیان کا ازالہ کرسکیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 639   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:639  
639. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ اس وقت گھر سے باہر تشریف لائے جب نماز کے لیے اقامت ہو چکی تھی اور صفیں بھی درست کر لی گئی تھیں حتی کہ جب آپ ﷺ مصلے پر کھڑے ہو گئے تو ہم آپ کے اللہ اکبر کہنے کا انتظار کرنے لگے، لیکن آپ نے ہم سے فرمایا: تم اپنی اپنی جگہ پر کھڑے رہو۔ اور خود واپس تشریف لے گئے، چنانچہ ہم سب اپنی اپنی جگہ پر کھڑے رہے یہاں تک کہ آپ تھوڑی دیر بعد جب ہمارے پاس دوبارہ تشریف لائے تو آپ کے سر پر پانی ٹپک رہا تھا کیونکہ آپ نے غسل فرمایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:639]
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو اذان کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:
اس نے ابو القاسم ﷺ کی نافرمانی کی ہے۔
امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث سے پتا چلا کہ یہ وعید اس شخص کے لیے ہے جو بلاوجہ اذان کے بعد مسجد سے نکلتا ہے، البتہ کسی ضرورت کے پیش نظر اقامت کے بعد بھی مسجد سے نکلنا جائز ہے، جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے، مثلا:
کسی کو جنابت کا غسل یاد آگیا یا وہ بےہوگیا یا اسے نکسیر پھوٹ نکلی یا وہ کسی دوسری مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دیتا ہے تو ایسے حالات میں اذان یا تکبیر کے بعد مسجد سے نکلنا جائز ہے۔
اذان کے بعد ضرورت کے بغیر مسجد سے نکلنا منافقت کی علامت ہے، چنانچہ حدیث میں ہے:
اگر کوئی شخص اذان کے بعد بلاوجہ مسجد سے نکلتا ہے اور واپس بھی نہیں آتا تو وہ منافق ہے، ہاں! اگر کوئی ضرورت ہوتو الگ بات ہے۔
(المعجم الأوسط للطبراني: 502/4)
اس سے معلوم ہوا کہ اذان یا اقامت کے بعد بلاوجہ مسجد سے نہیں نکلنا چاہیے (فتح الباري: 159/2) (2)
سنن دار قطنی کی ایک روایت میں اضافہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
میں بحالت جنابت تھا اور غسل کرنا بھول گیا تھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ عبادات کے سلسلے میں حضرات انبیاء علیہم السلام سہوونسیان کا شکار ہوسکتے ہیں۔
اس میں حکمت یہ ہے کہ امت کو ان سے متعلقہ مسائل سے آگاہی ہو، نیز اس حدیث سے درج ذیل مسائل کا پتا چلتا ہے:
٭مائے مستعمل پاک ہے۔
٭اقامت اور نماز کے درمیان اگر فاصلہ آجائے تو دوبارہ تکبیر کہنے کی ضرورت نہیں۔
٭ دینی معاملات میں شرم وحیا کو رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔
٭ اقامت اور نماز کے درمیان گفتگو جائز ہے۔
٭ غسل جنابت کو کسی وجہ سے مؤخر کیا جاسکتا ہے۔
(فتح الباري: 160/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 639