صحيح البخاري
كِتَاب الرِّقَاقِ -- کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
42. بَابُ سَكَرَاتِ الْمَوْتِ:
باب: موت کی سختیوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 6512
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ بْنِ رِبْعِيٍّ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرَّ عَلَيْهِ بِجِنَازَةٍ، فَقَالَ:" مُسْتَرِيحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْهُ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْمُسْتَرِيحُ وَالْمُسْتَرَاحُ مِنْهُ؟ قَالَ:" الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ يَسْتَرِيحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْيَا وَأَذَاهَا إِلَى رَحْمَةِ اللَّهِ، وَالْعَبْدُ الْفَاجِرُ يَسْتَرِيحُ مِنْهُ الْعِبَادُ، وَالْبِلَادُ، وَالشَّجَرُ، وَالدَّوَابُّ".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے محمد بن عمرو حلحلہ نے، ان سے سعد بن کعب بن مالک نے، ان سے ابوقتادہ بن ربعی انصاری رضی اللہ عنہ نے، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ «مستريح» یا «مستراح» ہے یعنی اسے آرام مل گیا، یا اس سے آرام مل گیا۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! المستریح او المستراح منہ کا کیا مطلب ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن بندہ دنیا کی مشقتوں اور تکلیفوں سے اللہ کی رحمت میں نجات پا جاتا ہے وہ «مستريح» ہے اور «مستراح» منہ وہ ہے کہ فاجر بندہ سے اللہ کے بندے، شہر، درخت اور چوپائے سب آرام پا جاتے ہیں۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 467  
´دنیا دکھوں اور مصیبتوں کا گھر ہے`
«. . . عن ابى قتادة بن ربعي انه كان يحدث ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر عليه بجنازة فقال: مستريح ومستراح منه. فقالوا: يا رسول الله، ما المستريح والمستراح منه؟ قال: العبد المؤمن يستريح من نصب الدنيا واذاها إلى رحمة الله، والعبد الفاجر يستريح منه العباد والبلاد والشجر والدواب . . .»
. . . سیدنا ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مستريح» (پرسکون و پُرآرام) یا «مسترح منه» (لوگ جس سے سکون و آرام میں ہوں) ہے۔ صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! «مستريح» اور «مستراح منه» کسے کہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن بندہ دنیا کی مصیبتوں اور تکلیفوں سے اللہ کی رحمت کی طرف سکون و آرام حا صل کرتا ہے اور فاطر (گناہ گار) بندے سے بندوں، شہروں درختوں اور جانوروں کو آ رام و سکون حاصل ہو تا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 467]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6512، ومسلم 950، من حديث مالك به]

تفقه
➊ مومن کے لئے دنیا راحت و آرام کی جگہ نہیں بلکہ قید خانہ ہے اور موت اس کے لئے راحت کا پیغام ہے۔
➋ دنیا دکھوں اور مصیبتوں کا گھر ہے جن کا علاج اللہ، رسول اور آخرت پر ایمان ہے۔ یہ ایمان انسان کے دل و دماغ میں صبر و تحمل اور قرآن و حدیث کی مسلسل اطاعت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
➌ کتاب و سنت کے مخالفین چاہے کفار ہوں یا فساق و فجار، انہوں نے دنیا میں ظلم و تشدد، فسق و فجور، قتل و قتال اور نافرمانی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
➍ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا خیر خواہ ہوتا ہے۔
➎ ہر مسلمان کو ہمہ وقت کوشش میں رہنا چاہیے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کو راحت و آرام پہنچائے اور کبھی کسی کو تکلیف نہ دے۔
➏ موت مومن کے لئے ایک نعمت ہے جس کے ذریعے سے بندہ مومن دنیا کی مصیبتوں سے نجات پا کر راحت آخرت کی طرف سفر کرتا ہے جبکہ کافر و فاسق کی موت سے دنیا میں کچھ لوگوں کو اس کے ظلم و ستم سے راحت نصیب ہوتی ہے۔
➐ اللہ کے نافرمان بندوں سے زمین ہی نہیں درخت و جانور تک تنگ ہوتے ہیں اور اس کی موت سے راحت پاتے ہیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 101   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6512  
6512. حضرت قتادہ بن ربعی انصاری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ نے فرمایا: یہ مستريح یا مستراح منہ ہے، یعنی اسے آرام مل گیا یا اس سے آرام مل گیا مل گیا۔ صحابہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! مستریع اور مستراح منہ کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: مومن شخص دنیا کی مشقتوں اور اذیتوں سے اللہ عزوجل کی رحمت میں آرام پاتا ہے اور فاجر بندے سے لوگ، شہر، درخت اور جانور آرام پاتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6512]
حدیث حاشیہ:
بندے اس طرح آرام پاتے ہیں کہ اس کے ظلم وستم اور برائیوں سے چھوٹ جاتے ہیں خس کم جہاں پاک ہوا۔
ایماندار تکالیف دنیا سے آرام پا کر داخل جنت ہوتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6512