صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
26. بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ مَا صَلَّيْنَا:
باب: آدمی یوں کہے کہ ہم نے نماز نہیں پڑھی تو اس طرح کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 641
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ، يَقُولُ: أَخْبَرَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَوْمَ الْخَنْدَقِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا كِدْتُ أَنْ أُصَلِّيَ حَتَّى كَادَتِ الشَّمْسُ تَغْرُبُ وَذَلِكَ بَعْدَ مَا أَفْطَرَ الصَّائِمُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَاللَّهِ مَا صَلَّيْتُهَا، فَنَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بُطْحَانَ وَأَنَا مَعَهُ، فَتَوَضَّأَ ثُمَّ صَلَّى يَعْنِي الْعَصْرَ بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى بَعْدَهَا الْمَغْرِبَ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شیبان نے یحییٰ کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوسلمہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ ہمیں جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے دن حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ! قسم اللہ کی سورج غروب ہونے کو ہی تھا کہ میں اب عصر کی نماز پڑھ سکا ہوں۔ آپ جب حاضر خدمت ہوئے تو روزہ افطار کرنے کا وقت آ چکا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم اللہ کی میں نے بھی تو نماز عصر نہیں پڑھی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بطحان کی طرف گئے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر عصر کی نماز پڑھی۔ سورج ڈوب چکا تھا۔ پھر اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 641  
641. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ غزوہ خندق کے موقع پر حضرت عمر بن خطاب نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں نماز نہیں پڑھ سکا یہاں تک کہ سورج غروب ہونے کے قریب ہو گیا۔ یہ گفتگو روزے دار کے روزہ افطار کرنے کے بعد ہوئی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں بھی نماز نہیں پڑھ سکا۔ چنانچہ آپ نیچے اترے اور وادی بطحان میں چلے، میں بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ آپ نے وضو کیا اور آفتاب غروب ہونے کے بعد پہلے نماز عصر پڑھی، اس کے بعد مغرب کی نماز ادا کی [صحيح بخاري، حديث نمبر:641]
حدیث حاشیہ:
یہ باب لاکر امام بخاری ؒ نے حضرت ابراہیم نخعی ؒ کا ردکیاہے۔
جنھوں نے یہ کہنا مکروہ قرار دیا کہ یوں کہاجائے کہ ہم نے نماز نہیں پڑھی۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ ابراہیم نے یہ کہنا اس شخص کے لیے مکروہ جانا جو نماز کا انتظار کررہاہو۔
کیونکہ وہ گویا نماز ہی میں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 641   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:641  
641. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ غزوہ خندق کے موقع پر حضرت عمر بن خطاب نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں نماز نہیں پڑھ سکا یہاں تک کہ سورج غروب ہونے کے قریب ہو گیا۔ یہ گفتگو روزے دار کے روزہ افطار کرنے کے بعد ہوئی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں بھی نماز نہیں پڑھ سکا۔ چنانچہ آپ نیچے اترے اور وادی بطحان میں چلے، میں بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ آپ نے وضو کیا اور آفتاب غروب ہونے کے بعد پہلے نماز عصر پڑھی، اس کے بعد مغرب کی نماز ادا کی [صحيح بخاري، حديث نمبر:641]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ بعض اوقات ایک ایسا عنوان قائم کرتے ہیں جس کا بظاہر کوئی فائدہ معلوم نہیں ہوتا جیسا کہ اس عنوان کے متعلق کہا جاتا ہے لیکن جب غور کیا جاتا ہے تو اس کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔
قبل ازیں حضرت ابن سیرین ؒ کے متعلق امام بخاری ؒ نے بیان کیا تھا کہ وہ ان الفاظ کو ناپسند کرتے ہیں کہہماری نماز رہ گئی۔
اسی طرح امام ابراہیم نخی ؒ کہتے ہیں کہہم نے نماز نہیں پڑھی کہنا مکروہ ہے کیونکہ یہ ایک قسم کی بے اعتنائی ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تردید فرمائی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ بوقت ضرورت ایسے الفاظ ادا کرنے میں چند حرج نہیں۔
اگرچہ مذکورہ روایت کے مطابق حضرت عمر ؓ نے یہ الفاظ استعمال نہیں فرمائے، لیکن ان کا مقولہ مفہوم اور نتیجے کے اعتبار سے (ما صليت)
میں نے نماز نہیں پڑھی ہی کے معنی دے رہا ہے۔
دراصل امام بخاری ؒ کا محل استدلال ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں جس میں وضاحت کے ساتھ حضرت عمر ؓ نے (ما صليت)
کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔
(صحیح البخاري، صلاة الخوف، حدیث: 945)
مذکورہ روایت میں بھی رسول اللہ ﷺ نے (ما صليت)
کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔
(2)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ امام بخارى ؒ اللہ اس سے تہذیب الفاظ کا سبق دینا چاہتے ہیں لیکن اگر استدلال رسول اللہ ﷺ کے ارشاد (والله ما صليتها)
سے ہوتا تو زیادہ مناسب تھا۔
علامہ ابن بطال ؒ نے حضرت امام نخعی ؒ کے متعلق لکھا ہے کہ آپ نے اس قسم کے الفاظ اس شخص کے لیے مکروہ خیال کیے ہیں جو نماز کے انتظار میں ہو کیونکہ حدیث کے مطابق نماز کا انتظار کرنے والا نماز ہی میں ہوتا ہے، اس لیے اسے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ میں نے نماز نہیں پڑھی، کیونکہ اس سے ایک ایسی چیز کا انکار لازم آتا ہے جسے شریعت نے ثابت کیا ہے۔
(شرح ابن بطال: 267/1)
ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ ایسے الفاظ کا استعمال اس شخص کے لیے جائز قرر یتے ہوں جو بھول کر نماز چھوڑ بیٹھا ہو یا کسی ہنگامی اور جنگی حالات کی وجہ سے نماز نہ پڑھ سکا ہو، وہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے نماز نہیں پڑھی۔
امام ابراہیم نخعی ؒ بھی علي الاطلاق اس کی کراہت کے قائل نہیں ہیں۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 641