صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
28. بَابُ الْكَلاَمِ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ:
باب: تکبیر ہو چکنے کے بعد کسی سے باتیں کرنا۔
حدیث نمبر: 643
حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الْوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، قَالَ: سَأَلْتُ ثَابِتًا الْبُنَانِيَّ عَنْ الرَّجُلِ يَتَكَلَّمُ بَعْدَ مَا تُقَامُ الصَّلَاةُ، فَحَدَّثَنِي عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَعَرَضَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَحَبَسَهُ بَعْدَ مَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ".
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حمید طویل نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ثابت بنانی سے ایک شخص کے متعلق مسئلہ دریافت کیا جو نماز کے لیے تکبیر ہونے کے بعد گفتگو کرتا رہے۔ اس پر انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ تکبیر ہو چکی تھی۔ اتنے میں ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے راستہ میں ملا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے لیے تکبیر کہی جانے کے بعد بھی روکے رکھا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 201  
´اقامت اور تکبیر تحریمہ میں کچھ فاصلہ ہو جائے تو`
«. . . أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ: أُقِيمَتْ صَلَاةُ الْعِشَاءِ، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي حَاجَةً، فَقَامَ يُنَاجِيهِ حَتَّى نَعَسَ الْقَوْمُ أَوْ بَعْضُ الْقَوْمِ، ثُمَّ صَلَّى بِهِمْ وَلَمْ يَذْكُرْ وُضُوءًا . . .»
. . . انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں عشاء کی نماز کی اقامت کہی گئی، اتنے میں ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے آپ سے ایک ضرورت ہے، اور کھڑے ہو کر آپ سے سرگوشی کرنے لگا یہاں تک کہ لوگوں کو یا بعض لوگوں کو نیند آ گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی۔ ثابت بنانی نے وضو کا ذکر نہیں کیا . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 201]
فوائد و مسائل:
اقامت اور تکبیر تحریمہ میں کچھ فاصلہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، دوبارہ اقامت کہنے کی ضرورت ہے، نہ امام پر یہ واجب ہےکہ تکبیر کے فوراً بعد «الله اكبر» کہہ کر نماز شروع کر دے جیسا کہ بعض حضرات کا موقف ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 201   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 542  
´اقامت کے بعد امام مسجد نہ پہنچے تو لوگ بیٹھ کر امام کا انتظار کریں۔`
حمید کہتے ہیں میں نے ثابت بنانی سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو نماز کی تکبیر ہو جانے کے بعد بات کرتا ہو، تو انہوں نے مجھ سے انس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے حدیث بیان کی کہ نماز کی تکبیر کہہ دی گئی تھی کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور اس نے آپ کو تکبیر ہو جانے کے بعد (باتوں کے ذریعے) روکے رکھا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 542]
542۔ اردو حاشیہ:
➊ اقامت اور تکبیر تحریمہ میں فاصلہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں اور مناسب بات کر لینا بھی جائز ہے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی متواضع انسان تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم ا جمعین کی ازحد دل جوئی فرمایا کرتے تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 542   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 792  
´اقامت کے بعد امام کو کوئی ضرورت پیش آ جائے جس سے وہ نماز مؤخر کر دے۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز کے لیے اقامت کہی جا چکی تھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص سے راز داری کی باتیں کر رہے تھے، تو آپ نماز کے لیے کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ لوگ سونے لگے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 792]
792 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اس آدمی سے بات چیت کسی ضروری مسئلے میں ہو گی لہٰذا کوئی ضرورت پڑ جائے تو اقامت اور تکبیر تحریمہ میں فاصلہ ہو سکتا ہے بلکہ صفوں کی تصحیح و ترصیص کے لیے امام اقامت کے بعد ہدایات دے سکتا ہے۔ صفوں کی درستی کے بعد تکبیر تحریمہ کہی جائے۔
➋ لوگ سو گئے۔ یعنی اونگھنے لگے۔ ارکان نماز کی حالتوں می سے کسی حالت میں اونگھنا اس وقت تک وضو کے لیے مضر نہیں جب تک شعور اور فہم و ادراک زائل نہ ہو یعنی گہری نیند نہ سوئے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 792   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 643  
643. حمید الطویل فرماتے ہیں: میں نے ثابت بنانی سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو اقامت کے بعد گفتگو کرتا ہے، تو انہوں نے کہا: حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ نماز کے لیے اقامت ہو چکی تھی کہ نبی ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا، اس نے آپ کو اقامت ہو جانے کے بعد روک لیا (اور باتیں کرتا رہا)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:643]
حدیث حاشیہ:
یہ آپ ﷺ کے کمال اخلاق حسنہ کی دلیل ہے کہ تکبیر ہو چکنے کے بعد بھی آپ نے اس شخص سے گفتگو جاری رکھی۔
آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب تک ملنے والا خود جدا نہ ہوتا آپ ضرور موجود رہتے۔
یہاں بھی یہی ماجرا ہوا۔
بہرحال کسی خاص موقع پر اگرامام ایسا کرے تو شرعاً اس پر مؤاخذہ نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 643   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:643  
643. حمید الطویل فرماتے ہیں: میں نے ثابت بنانی سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو اقامت کے بعد گفتگو کرتا ہے، تو انہوں نے کہا: حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ نماز کے لیے اقامت ہو چکی تھی کہ نبی ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا، اس نے آپ کو اقامت ہو جانے کے بعد روک لیا (اور باتیں کرتا رہا)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:643]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے:
رسول اللہ ﷺ اس شخص سے گوشۂ مسجد میں تادیر گفتگو کرتے رہے یہاں تک کے لوگوں کو اونگھ آنے لگی۔
(حدیث: 642)
اس سے ثابت ہوا کہ کسی شرعی معاملے سے متعلق اقامت اور تکبیر تحریمہ کے درمیان گفتگو کرنے میں چنداں حرج نہیں۔
رسول اللہ ﷺ تکبیر تحریمہ سے پہلے مقتدی حضرات کو صفیں درست کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔
چونکہ اس قسم کی گفتگو نماز سے متعلق ہے، اس لیے کسی کوبھی اس کے جواز میں کلام نہیں ہے۔
بہرحال کسی خاص ضرورت ومصلحت کے بغیر اقامت اور تکبیر تحریمہ کے درمیان گفتگو کرنا پسندیدہ عمل نہیں اور ضرورت کے پیش نظر ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
والله أعلم. (2)
حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ اذان اور اس کے متعلقات پر کل 47 احادیث ہیں جن میں 6 معلق، 23 مکرر اور خالص 24 احادیث مروی ہیں، اس کے علاوہ صحابہ و تابعین کے 8 آثار بھی بیان کیے گئے ہیں۔
(فتح الباري: 164/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 643