صحيح البخاري
كِتَاب الرِّقَاقِ -- کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
49. بَابُ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ عُذِّبَ:
باب: جس کے حساب میں کھود کرید کی گئی اس کو عذاب کیا جائے گا۔
حدیث نمبر: 6540
قَالَ الْأَعْمَشُ: حَدَّثَنِي عَمْرٌو، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اتَّقُوا النَّارَ ثُمَّ أَعْرَضَ وَأَشَاحَ، ثُمَّ قَالَ: اتَّقُوا النَّارَ ثُمَّ أَعْرَضَ وَأَشَاحَ ثَلَاثًا، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا، ثُمَّ قَالَ: اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہنم سے بچو، پھر آپ نے چہرہ پھیر لیا، پھر فرمایا کہ جہنم سے بچو اور پھر اس کے بعد چہرہ مبارک پھیر لیا، پھر فرمایا جہنم سے بچو۔ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔ ہم نے اس سے یہ خیال کیا کہ آپ جہنم دیکھ رہے ہیں۔ پھر فرمایا کہ جہنم سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعہ ہو سکے اور جسے یہ بھی نہ ملے تو اسے (لوگوں میں) کسی اچھی بات کہنے کے ذریعہ سے ہی (جہنم سے) بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6540  
6540. حضرت عدی بن حاتم ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جہنم سے بچو پھر آپ نے اپنا چہرہ پھیر لیا اور ناگواری کا اظہار کیا۔ پھر فرمایا: جہنم سے بچو۔ پھر آپ نے اپنا چہرہ پھیر لیا اور ناگواری کا اظہار کیا۔ تین مرتبہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ ہمیں اس سے خیال پیدا ہوا کہ آپ جہنم کو دیکھ رہے ہیں پھر آپ نے فرمایا: جہنم سے بچو، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے سے ممکن ہو، جسے یہ بھی نہ ملے تو اسے کسی اچھی بات کہنے کے ذریعے سے ہی بچنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6540]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں ہے کہ بے حجاب اور بے ترجمان کے یعنی کھلم کھلا اللہ پاک کو دیکھے گا اور اللہ تعالیٰ خود اپنی ذات سے بات کرے گا۔
یہ نہیں کہ اس کی طرف سے کوئی مترجم بات کرے۔
اب یہ ظاہر ہے کہ دنیا میں صدہا زبانیں ہیں تو اللہ پاک ہر زبان میں بات کرے گا اور یہ کلام حروف اور آواز کے ساتھ ہوگا ورنہ آدمی اس کی بات کیسے سمجھیں گے اور کیوں کر سنیں گے۔
اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں آواز اور حروف نہیں ہیں بلکہ معتزلہ اور جہیمہ تو یہ کہتے ہیں کہ وہ کلام ہی نہیں کرتا کسی دوسری چیز میں کلام کرنے کی قوت پیدا کر دیتا ہے۔
الفاظ فتستقبله النار کی مزید تشریح مسلم میں یوں آئی ہے کہ دائیں طرف دیکھے گا تو اپنے اعمال نظر آئیں گے۔
بائیں طرف دیکھے تو بھی اپنے اعمال نظر آئیں گے۔
سامنے نظر کرے گا تو منہ کے سامنے دوزخ نظرآئے گی۔
اچھی بات وہ ہے جس سے کسی کو ہدایت ہو، خدا اور رسول کی باتیں یا جس سے کوئی جھگڑا رفع ہو، لوگوں میں ملاپ ہو جائے یا جس سے کسی کا غصہ دور ہو جائے، ایسی عمدہ بات کہنے میں بھی ثواب ملے گا۔
حدیث کے آخری الفاظ کا یہی مطلب ہے۔
ہمدردی و غمخواری، محبت و شفقت، اتفاق و حسن اخلاق کی باتیں کرنا یہ بھی سب کلمات طیبات میں داخل ہیں اور ان سے بھی صدقہ خیرات کا ثواب ملتا ہے مگر کتنے لوگ ایسے ہیں کہ ان کو یہ بھی نصیب نہیں، اللہ ان کو نیک سمجھ عطا کرے۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6540   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6540  
6540. حضرت عدی بن حاتم ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جہنم سے بچو پھر آپ نے اپنا چہرہ پھیر لیا اور ناگواری کا اظہار کیا۔ پھر فرمایا: جہنم سے بچو۔ پھر آپ نے اپنا چہرہ پھیر لیا اور ناگواری کا اظہار کیا۔ تین مرتبہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ ہمیں اس سے خیال پیدا ہوا کہ آپ جہنم کو دیکھ رہے ہیں پھر آپ نے فرمایا: جہنم سے بچو، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے سے ممکن ہو، جسے یہ بھی نہ ملے تو اسے کسی اچھی بات کہنے کے ذریعے سے ہی بچنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6540]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک دوسری روایت میں وضاحت ہے کہ وہ دائیں جانب دیکھے گا تو اسے اپنے اعمال نظر آئیں گے، بائیں طرف دیکھے گا تو بھی اپنے اعمال ہی نظر آئیں گے، سامنے دیکھے گا تو منہ کے سامنے دوزخ نظر آئے گا، اس لیے تمہیں آگ سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے یا کوئی اچھی بات کہنے کے ذریعے سے ممکن ہو۔
(صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7512)
ایک اور روایت میں ہے کہ اسے دائیں جانب آگ نظر آئے گی اور بائیں جانب بھی آگ ہی نظر آئے گی۔
(صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1413) (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن ہبیرہ کے حوالے سے اس کا سبب ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ اس کی گزرگاہ آگ ہو گی، اس سے ہٹ کر اسے کوئی راستہ میسر نہیں ہو گا کیونکہ پل صراط پر سے گزرے بغیر کوئی چارہ نہیں ہو گا۔
(فتح الباري: 492/11) (3)
مطلب یہ ہے کہ آتش دوزخ سے بچنے کے لیے صدقہ کرتے رہا کرو۔
اگر کھجور کے ایک خشک ٹکڑے کے سوا تمہیں کچھ میسر نہ ہو تو اللہ کے راستے میں وہی دے کر دوزخ سے بچنے کی فکر کرو۔
اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو اچھی بات کہنے سے یہ انعام حاصل کرنا چاہیے، مگر کتنے لوگ ہیں کہ انہیں یہ بھی نصیب نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نیک سمجھ عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6540