صحيح البخاري
كِتَاب الرِّقَاقِ -- کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
51. بَابُ صِفَةِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ:
باب: جنت و جہنم کا بیان۔
حدیث نمبر: 6558
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ بِالشَّفَاعَةِ كَأَنَّهُمُ الثَّعَارِيرُ، قُلْتُ: مَا الثَّعَارِيرُ؟ قَالَ: الضَّغَابِيسُ، وَكَانَ قَدْ سَقَطَ فَمُهُ"، فَقُلْتُ لِعَمْرِو بْنِ دِينَارٍ أَبَا مُحَمَّدٍ: سَمِعْتَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" يَخْرُجُ بِالشَّفَاعَةِ مِنَ النَّارِ"، قَالَ: نَعَمْ.
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل سدوسی نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ لوگ دوزخ سے شفاعت کے ذریعہ نکلیں گے گویا کہ «ثعارير» ہوں۔ حماد کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار سے پوچھا کہ «ثعارير» کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس سے مراد چھوٹی ککڑیاں ہیں اور ہوا یہ تھا کہ آخر عمر میں عمرو بن دینار کے دانت گر گئے تھے۔ حماد کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار سے کہا: اے ابومحمد! (یہ عمرو بن دینار کی کنیت ہے) کیا آپ نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے یہ سنا ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ ہاں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہنم سے شفاعت کے ذریعہ لوگ نکلیں گے؟ انہوں نے کہا ہاں بیشک سنا ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6558  
6558. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (کچھ لوگ) شفاعیت کی وجہ سے جہنم سے ثعاریر کی طرح نکلیں گے۔ (حماد کہتے ہیں) کہ میں نے (عمرو بن دینار سے) پوچھا: ثعاریر کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا: اس سے مراد چھوٹی ککڑیاں ہیں۔ ہوا یہ تھا کہ عمر کے آخری حصے میں عمرو بن دینار کے دانت گر گئے تھے (اس لیے اس لفظ کا صحیح تلفظ نہ کرسکتے تھے)۔ حماد کہتے ہیں: میں نے عمرو بن دینار سے کہا: اے ابو محمد! کیا واقعی آپ نے جابر سے سنا ہے کہ وہ کہتے تھے: میں نے نبی ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ وہ کہتے تھے: میں نے نبی ﷺ کو فرماتے سنا: (کچھ لوگ) شفاعت کی وجہ سے جہنم سے نکلیں گے؟ انہوں نے کہا:ہاں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6558]
حدیث حاشیہ:
بعض نے کہا کہ ثراریر ایک قسم کی دوسری ترکاری ہے جو سفید ہوتی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ پہلے دوزخ میں جل جل کر کوئلہ کی طرح کالے پڑجائیں گے۔
پھرجب شفاعت کے سبب سے دوزخ سے نکلیں گے اور ماءالحیاۃ میں نہلائے جائیں گے تو ثعاریر کی طرح سفید ہو جائیں گے۔
اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ مومن دوزخ میں نہیں جائے گا۔
اسی طرح ان لوگوں کی بھی تردید ہوگئی جو کہتے ہیں کہ شفاعت سے کوئی فائدہ نہ ہوگا، جیسے معتزلہ اور خوارج کا قول ہے۔
بیہقی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نکالا انہوں نے خطبہ سنایا، فرمایا اس امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو رجم کا انکار کریں گے، دجال کا انکار کریں گے، قبر کے عذاب کا انکار کریں گے۔
شفاعت کا انكار کریں گے۔
دوسری حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری شفاعت ان لوگوں کے واسطے ہوگی جو میری امت میں کبیرہ گناہوں میں مبلا ہوں گے۔
اللهم ارزقنا شفاعة محمد و آله و أصحابه أجمعین رحمتك یا أرحم الراحمین آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6558   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6558  
6558. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (کچھ لوگ) شفاعیت کی وجہ سے جہنم سے ثعاریر کی طرح نکلیں گے۔ (حماد کہتے ہیں) کہ میں نے (عمرو بن دینار سے) پوچھا: ثعاریر کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا: اس سے مراد چھوٹی ککڑیاں ہیں۔ ہوا یہ تھا کہ عمر کے آخری حصے میں عمرو بن دینار کے دانت گر گئے تھے (اس لیے اس لفظ کا صحیح تلفظ نہ کرسکتے تھے)۔ حماد کہتے ہیں: میں نے عمرو بن دینار سے کہا: اے ابو محمد! کیا واقعی آپ نے جابر سے سنا ہے کہ وہ کہتے تھے: میں نے نبی ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ وہ کہتے تھے: میں نے نبی ﷺ کو فرماتے سنا: (کچھ لوگ) شفاعت کی وجہ سے جہنم سے نکلیں گے؟ انہوں نے کہا:ہاں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6558]
حدیث حاشیہ:
(1)
اہل ایمان میں سے کچھ لوگ اپنے گناہوں کی پاداش میں جل کر کوئلہ بن جائیں گے، پھر جب شفاعت کے ذریعے سے نکلیں گے اور آب حیات میں انہیں ڈالا جائے گا تو وہ چھوٹی چھوٹی ککڑیوں کی طرح سفید ہو جائیں گے اور ازسرنو ان میں زندگی پیدا ہو گی۔
(2)
اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ کبیرہ گناہ کرنے والے جہنم میں نہیں جائیں گے اور ان لوگوں کی بھی تردید ہے جن کا موقف ہے کہ شفاعت سے کچھ فائدہ نہیں ہو گا جیسا کہ معتزلہ اور خوارج کا خیال ہے۔
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ اس امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو رجم، دجال، عذاب قبر اور شفاعت کا انکار کریں گے۔
(فتح الباري: 519/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6558