صحيح البخاري
كِتَاب الرِّقَاقِ -- کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
51. بَابُ صِفَةِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ:
باب: جنت و جہنم کا بیان۔
حدیث نمبر: 6564
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، وَالدَّرَاوَرْدِيُّ، عَنْ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذُكِرَ عِنْدَهُ عَمُّهُ أَبُو طَالِبٍ، فَقَالَ:" لَعَلَّهُ تَنْفَعُهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُجْعَلُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ يَبْلُغُ كَعْبَيْهِ يَغْلِي مِنْهُ أُمُّ دِمَاغِهِ".
ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی حازم اور دراوردی نے بیان کیا، ان سے یزید بن عبداللہ بن ہاد نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن خباب نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ کے چچا ابوطالب کا ذکر کیا گیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ممکن ہے قیامت کے دن میری شفاعت ان کے کام آ جائے اور انہیں جہنم میں ٹخنوں تک رکھا جائے جس سے ان کا بھیجا کھولتا رہے گا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6564  
´بعض جہنمیوں کو دوسرے جہنمیوں کے مقابلے میں زیادہ عذاب ہونا`
«. . . أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذُكِرَ عِنْدَهُ عَمُّهُ أَبُو طَالِبٍ، فَقَالَ:" لَعَلَّهُ تَنْفَعُهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُجْعَلُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ يَبْلُغُ كَعْبَيْهِ يَغْلِي مِنْهُ أُمُّ دِمَاغِهِ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ کے چچا ابوطالب کا ذکر کیا گیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ممکن ہے قیامت کے دن میری شفاعت ان کے کام آ جائے اور انہیں جہنم میں ٹخنوں تک رکھا جائے جس سے ان کا بھیجا کھولتا رہے گا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ: 6564]

فوائد و مسائل:
یہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
[صحيح مسلم:210 يا 513]
[مسند احمد:55،50،9،8/3]
[مسند ابي يعلٰي:1360]
[صحيح ابي عوانه:98،97/1]
[صحيح ابن حبان:6238 يا 6271، وسنده صحيح]
[دلائل النبوه للبهيقي:347/2]
معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے آپ کے چچا کے عذاب میں کچھ تخفیف ہو گی لیکن اس تخفیف کے باوجود اس کا دماغ آگ کی گرمی کی وجہ سے کھول رہا ہو گا۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض جہنمیوں کو دوسرے جہنمیوں کے مقابلے میں زیادہ عذاب ہوتا ہے۔ یہ بات قرآن مقدس کی کسی آيت کے خلاف نہیں ہے۔ قرآن مقدس میں جس استغفار و شفاعت سے منع کیا گیا ہے، اس سے مراد مذکور شخص کے لئے جہنم کے عذاب کا خاتمہ اور جنت میں داخلہ ہے اور یہ دونوں باتیں ابوطالب والی حدیث مذکور میں مفقود ہیں قرآن و حدیث میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
   توفيق الباري في تطبيق القرآن و صحيح بخاري، حدیث/صفحہ نمبر: 34   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6564  
6564. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ کے سامنے آپ کے چچا ابوطالب کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: ممکن ہے کہ قیامت کے دن میری شفاعت اس کے کام آجائے تو اسے جہنم میں ٹخنوں تک رکھا جائے جس سے اس کا دماغ کھولتا رہے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6564]
حدیث حاشیہ:
قرآن شریف میں ﴿فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ﴾ (مدثر: 48) (ان کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کام نہ دے گی)
لیکن آیت میں نفع سے یہ مراد ہے کہ وہ دوزخ سے نکال لیے جائیں، یہ فائدہ کافروں اور مشرکوں کے لیے نہیں ہوسکتا۔
اس صورت میں حدیث اور آیت میں اختلاف نہیں رہے گا مگر دوسری آیت میں جو یہ فرمایا ﴿فلا یُخَفَّفُ عَنهُمُ العذابُ﴾ (البقرة: 86) (یعنی ان سے عذاب کم نہیں کیا جائے گا)
اس کا جواب یوں بھی دے سکتے ہیں کہ جو عذاب ان پر شروع ہوگا وہ ہلکا نہیں ہوگا یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ بعض کافروں پر شروع ہی سے ہلکا عذاب مقرر کیا جائے، بعض کے لیے سخت ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6564   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6564  
6564. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ کے سامنے آپ کے چچا ابوطالب کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: ممکن ہے کہ قیامت کے دن میری شفاعت اس کے کام آجائے تو اسے جہنم میں ٹخنوں تک رکھا جائے جس سے اس کا دماغ کھولتا رہے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6564]
حدیث حاشیہ:
(1)
قرآن مجید میں ہے:
کفار کو سفارش کرنے والوں کی سفارش کام نہیں دے گی۔
(المدثر: 48)
اس سے مراد یہ ہے کہ انہیں جہنم سے نہیں نکالا جائے گا۔
ایک دوسری آیت میں ہے کہ کفار سے عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا۔
(البقرة: 86/2)
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو عذاب ان پر شروع ہو گا اس میں تخفیف نہیں کی جائے گی۔
ابو طالب پر شروع ہی سے ہلکا عذاب ہو گا۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہنم میں تمام کفار کو ایک جیسا عذاب نہیں دیا جائے گا بلکہ اس میں مختلف مدارج ہوں گے۔
عقل اس کا تقاضا کرتی ہے کہ کچھ کافر اپنے کفر کے ساتھ اسلام کے دشمن بھی ہوں گے لیکن کچھ کافر کفر پر ہوں گے لیکن مسلمانوں کے ساتھ ان کی دشمنی نہیں ہو گی۔
سورۂ ممتحنہ میں کفار کی اس تفریق کو برقرار رکھا گیا ہے۔
واللہ اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6564