مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ -- 0
33. مسنَد اَبِی سَعِید الخدرِیِّ رَضِیَ اللَّه تَعَالَى عَنه
0
حدیث نمبر: 11008
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ الْقَعْقَاعِ ، عَنِ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: بَعَثَ عَلِيٌّ مِنَ الْيَمَنِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَهَبَةٍ فِي أَدِيمٍ مَقْرُوظٍ، لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِهَا، فَقَسَمَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَرْبَعَةٍ: بَيْنَ زَيْدِ الْخَيْرِ، وَالْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ، وَعُيَيْنَةَ بْنِ حِصْنٍ، وَعَلْقَمَةَ بْنِ عُلَاثَةَ أَوْ عَامِرِ بْنِ الطُّفَيْلِ، شَكَّ عُمَارَةُ، فَوَجَدَ مِنْ ذَلِكَ بَعْضُ أَصْحَابِهِ وَالْأَنْصَارُ وَغَيْرُهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا تَأْتَمِنُونِي وَأَنَا أَمِينُ مَنْ فِي السَّمَاءِ، يَأْتِينِي خَبَرٌ مِنَ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً"، ثُمَّ أَتَاهُ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، نَاشِزُ الْجَبْهَةِ، كَثُّ اللِّحْيَةِ، مُشَمَّرُ الْإِزَارِ، مَحْلُوقُ الرَّأْسِ، فَقَالَ: اتَّقِ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيْهِ، فَقَالَ:" وَيْحَكَ، أَلَسْتُ أَحَقَّ أَهْلِ الْأَرْضِ أَنْ يَتَّقِيَ اللَّهَ أَنَا؟"، ثُمَّ أَدْبَرَ، فَقَالَ خَالِدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَلَعَلَّهُ يَكُونُ يُصَلِّي"، فَقَالَ: إِنَّهُ رُبَّ مُصَلٍّ يَقُولُ بِلِسَانِهِ مَا لَيْسَ فِي قَلْبِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَمْ أُومَرْ أَنْ أُنَقِّبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ، وَلَا أَشُقَّ بُطُونَهُمْ"، ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُقَفٍّ، فَقَالَ:" هَا إِنَّهُ سَيَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ".
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے سونے کا ایک ٹکڑا دباغت دی ہوئی کھال میں لپیٹ کر " جس کی مٹی خراب نہ ہوئی تھی " نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زید الخیر، اقرع بن حابس، عیینہ بن حصن اور علقمہ بن علاثہ یا عامر بن طفیل چار آدمیوں میں تقسیم کردیا، بعض صحابہ رضی اللہ عنہ اور انصار وغیرہ کو اس پر کچھ بوجھ محسوس ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ میں تو آسمان والے کا امین ہوں، میرے پاس صبح شام آسمانی خبریں آتی ہیں، اتنی دیر میں گہری آنکھوں، سرخ رخساروں، کشادہ پیشانی، گھنی ڈاڑھی، تہبند خوب اوپر کیا ہوا اور سرمنڈایا ہوا ایک آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! اللہ کا خوف کیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا بدنصیب! کیا اہل زمین میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے کا حقدار میں ہی نہیں ہوں۔ پھر وہ آدمی پیٹھ پھیر کر چلا گیا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کہنے لگے، یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیجئے کہ اس کی گردن مار دوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہوسکتا ہے کہ یہ نماز پڑھتا ہو، انہوں نے عرض کیا کہ بہت سے نمازی ایسے بھی ہیں جو اپنی زبان سے وہ کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اس بات کا حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں سوراخ کرتا پھروں یا ان کے پیٹ چاک کرتا پھروں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک نظر دیکھا جو پیٹھ پھیر کر جارہا تھا اور فرمایا یاد رکھو! اسی شخص کی نسل میں ایک ایسی قوم آئے گی جو قرآن تو پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔