مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ -- 0
33. مسنَد اَبِی سَعِید الخدرِیِّ رَضِیَ اللَّه تَعَالَى عَنه
0
حدیث نمبر: 11157
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الدَّسْتُوَائِيُّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ، فَقَالَ:" إِنَّ مِمَّا أَخَافُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي مَا يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيْكُمْ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَزِينَتِهَا"، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوَيَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ؟ فَسَكَتَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَيْنَا أَنَّهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ جِبْرِيلُ، فَقِيلَ لَهُ: مَا شَأْنُكَ تُكَلِّمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يُكَلِّمُكَ؟ فَسُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ يَمْسَحُ عَنْهُ الرُّحَضَاءَ، فَقَالَ:" أَيْنَ السَّائِلُ؟"، وَكَأَنَّهُ حَمِدَهُ، فَقَالَ:" إِنَّ الْخَيْرَ لَا يَأْتِي بِالشَّرِّ، وَإِنَّ مِمَّا يُنْبِتُ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ أَوْ يُلِمُّ حَبَطًا، أَلَمْ تَرَ إِلَى آكِلَةِ الْخَضِرَةِ أَكَلَتْ حَتَّى إِذَا امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاهَا وَاسْتَقْبَلَتْ عَيْنَ الشَّمْسِ، فَثَلَطَتْ وَبَالَتْ، ثُمَّ رَتَعَتْ، وَإِنَّ الْمَالَ حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ، وَنِعْمَ صَاحِبُ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ هُوَ لِمَنْ أَعْطَى مِنْهُ الْمِسْكِينَ وَالْيَتِيمَ وَابْنَ السَّبِيلِ" أَوْ كَمَا قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَإِنَّ الَّذِي أَخَذَهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ كَمَثَلِ الَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، فَيَكُونُ عَلَيْهِ شَهِيدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر جلوہ افروز ہو کر ایک مرتبہ ہم سے فرمایا مجھے تم پر سب سے زیادہ اندیشہ اس چیز کا ہے کہ اللہ تمہارے لئے زمین کی نباتات اور دنیا کی رونقیں نکال دے گا، ایک آدمی نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا خیر بھی شر کو لاسکتی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، ہم سمجھ گئے کہ ان پر وحی نازل ہو رہی ہے چنانچہ ہم نے اس آدمی سے کہا کیا بات ہے؟ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کر رہے ہو اور وہ تم سے بات نہیں کر رہے؟ پھر جب وہ کیفیت دور ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنا پسینہ پونچھنے لگے اور فرمایا وہ سائل کہاں ہے؟ اس نے عرض کیا میں یہاں موجود ہوں اور میرا ارادہ صرف خیر ہی کا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خیر ہمیشہ خیر ہی کو لاتی ہے، البتہ یہ دنیا بڑی شاداب اور شیریں ہے اور موسم بہار میں اگنے والی خود رو گھاس جانور کو پیٹ پھلا کر یا بدہضمی کرکے مار دیتی ہے، لیکن جو جانور عام گھاس چرتا ہے، وہ اسے کھاتا رہتا ہے، جب اس کی کھوکھیں بھر جاتی ہیں تو وہ سورج کے سامنے آکر لید اور پیشاب کرتا ہے، پھر دوبارہ آکر کھا لیتا ہے، چنانچہ مسلمان آدمی تو مسکین، یتیم اور مسافر کے حق میں بہت اچھا ہوتا ہے اور جو شخص ناحق اسے پالیتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو کھاتا جائے لیکن سیراب نہ ہو اور وہ اس کے خلاف قیامت کے دن گواہی دے گا