صحيح البخاري
كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ -- کتاب: قسموں اور نذروں کے بیان میں
7. بَابُ مَنْ حَلَفَ بِمِلَّةٍ سِوَى مِلَّةِ الإِسْلاَمِ:
باب: اس شخص کے بارے میں جس نے اسلام کے سوا اور کسی مذہب پر قسم کھائی۔
وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ حَلَفَ بِاللَّاتِ وَالْعُزَّى، فَلْيَقُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَلَمْ يَنْسُبْهُ إِلَى الْكُفْرِ.
‏‏‏‏ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے لات اور عزیٰ کی (اتفاقاً بغیر قصد اور عقیدت کے) قسم کھا لی اسے بطور کفارہ کلمہ توحید «لا إله إلا الله» پڑھ لینا چاہئے (ایسے بھول چوک میں قسم کھانے والے کو) آپ نے کفر کی طرف منسوب نہیں فرمایا۔
حدیث نمبر: 6652
حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ مِلَّةِ الْإِسْلَامِ، فَهُوَ كَمَا قَالَ، قَالَ: وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيْءٍ، عُذِّبَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، وَلَعْنُ الْمُؤْمِنِ، كَقَتْلِهِ، وَمَنْ رَمَى مُؤْمِنًا بِكُفْرٍ، فَهُوَ كَقَتْلِهِ".
ہم سے معلی بن اسعد نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، انہوں نے ایوب سے روایت کیا، انہوں نے ابوقلابہ سے، انہوں نے ثابت بن ضحاک سے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اسلام کے سوا کسی اور مذہب پر قسم کھائے پس وہ ایسا ہی ہے جیسی کہ اس نے قسم کھائی ہے اور جو شخص اپنے نفس کو کسی چیز سے ہلاک کرے وہ دوزخ میں اسی چیز سے عذاب دیا جاتا رہے گا اور مومن پر لعنت بھیجنا اس کو قتل کرنے کے برابر ہے اور جس نے کسی مومن پر کفر کا الزام لگایا پس وہ بھی اس کے قتل کرنے کے برابر ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2098  
´اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب میں جانے کی قسم کھانے کا بیان۔`
ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اسلام کے سوا کسی اور دین میں چلے جانے کی جھوٹی قسم جان بوجھ کر کھائی، تو وہ ویسے ہی ہو گا جیسا اس نے کہا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2098]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
  دوسرے مذہب کی قسم کا مطلب یہ ہے کہ اس نے کہا:
اگر میں نے فلاں کام کیا ہو تو میں یہودی ہوں یا کہا:
اگر میں جھوٹ کہوں تو کافر ہو جاؤں۔
اس انداز کی قسم سے پرہیز کرنا چاہیے۔

(2)
  حافظ صلاح الدین یوسف حفظ اللہ اس کی بابت یوں لکھتے ہیں کہ اگر قسم کھاتے وقت اس کا ارادہ بھی یہی تھا کہ اگر اس نے یہ کام کیا تو وہ کفر کا راستہ اختیار کر لے گا تو وہ فی الفور کافر ہو جائے گا اور اگر اس کا مقصد دین اسلام پر استقامت کا اظہار تھا اور اس کا عزم تھا کہ وہ کبھی کفر کا راستہ اختیار نہیں کرے گا تو وہ کافر تو نہیں ہو گا لیکن اس کے لیے اس نے جو طریقہ اختیار کیا، وہ غلط تھا اس لیے اسے توبہ و استغفار کا اہتمام کرنا چاہیے بلکہ بہتر ہے کہ دوبارہ کلمہ شہادت پڑھ کر تجدید اسلام کر لے۔ دیکھیے: (ریاض الصالحین (اردو)
جلد دوم، حدیث: 1710 کے فوائد مطبوعہ دارالسلام)

   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2098   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1543  
´اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کے قسم کی کراہت کا بیان۔`
ثابت بن ضحاک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کی جھوٹی قسم کھائی وہ ویسے ہی ہو گیا جیسے اس نے کہا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1543]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ تغلیظ وتہدید کے طورپر ہے اگر صحیح عقیدہ کا حامل ہے تو کافر نہیں ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1543   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6652  
6652. حضرت ثابت بن ضحاک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے اسلام کے علاوہ کسی دوسرے کی قسم کھائی تو وہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے کہا۔ اور جس نے کسی چیز کو قتل کیا اسے دوزخ کی آگ میں اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا۔ اور مومن پر لعنت کرنا قتل کے مترداف ہے اور جس نے کسی مومن پر کفر کا الزام لگایا وہ بھی قتل کے برابر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6652]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس نے دین اسلام کے علاوہ کسی اور دین کی قسم اٹھائی، مثلاً:
اگر میں نے یہ کام کیا تو میں یہودی بن جاؤں یا عیسائی ہو جاؤں، اس طرح کہنے والے کا اسلام خطرے میں پڑ جاتا ہے۔
ممکن ہے کہ وہ یہودی ہو جائے جیسا کہ اس نے کہا ہے۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے مراد زجر و تہدید اور وعید معلوم ہوتی ہے، گویا وہ یہودیوں جیسے عذاب کا حق دار ہو جاتا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے، حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس نے قسم اٹھائی اور کہا کہ میں اسلام سے بے زار ہوں، اگر جھوٹا ہے تو واقعی اسلام سے بے زار ہو گا جیسا کہ اس نے کہا ہے اور اگر وہ سچا ہے تو پھر بھی اسلام کی طرف صحیح سالم نہیں لوٹ سکے گا۔
(سنن أبي داود، الأیمان والنذور، حدیث: 3258)
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے:
جس نے جان بوجھ کر ملت اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کی جھوٹی قسم اٹھائی وہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے کہا۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1363) (3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ کسی چیز کو شرط کے ساتھ معلق کرنا بھی قسم ہوتا ہے کیونکہ اس سے بھی کسی چیز کے کرنے یا نہ کرنے کا عہد ہوتا ہے اور قسم میں یہی مقصود ہے۔
جمہور کا موقف ہے کہ ایسے آدمی کو توبہ و استغفار کرنا چاہیے، نیز اس کے ذمے کوئی کفارہ وغیرہ نہیں ہے لیکن اس میں کچھ تفصیل ہے کہ اگر وہ اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کی تعظیم کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ بلاشبہ دین اسلام سے خارج ہو گا اور اگر تعظیم مقصود نہیں بلکہ تعلیق ہی پیش نظر ہے تو اگر دوسرا دین اپنانے کا ارادہ ہے تو کافر ہو جائے گا کیونکہ کفر کا ارادہ بھی کفر ہے اور اگر وہ اس سے دور رہنا چاہتا ہے تو کافر نہیں ہو گا۔
(4)
بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسے آدمی کو دین سے خارج خیال نہیں کرنا چاہیے۔
(فتح الباري: 656/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6652