صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
32. بَابُ فَضْلِ التَّهْجِيرِ إِلَى الظُّهْرِ:
باب: ظہر کی نماز کے لیے سویرے جانے کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 654
وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي التَّهْجِيرِ لَاسْتَبَقُوا إِلَيْهِ، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي الْعَتَمَةِ وَالصُّبْحِ لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا".
‏‏‏‏ اور اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ ظہر کی نماز کے لیے سویرے جانے میں کیا ثواب ہے تو اس کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں اور اگر یہ جان جائیں کہ عشاء اور صبح کی نماز کے فضائل کتنے ہیں، تو گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے ان کے لیے آئیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 654  
654. (آپ نے فرمایا:) اگر لوگوں کو علم ہو کہ (نماز ظہر کے لیے) جلدی آنے میں کتنا ثواب ہے تو ضرور ایک دوسرے سے آگے بڑھیں۔ اور اگر جان لیں کہ عشاء اور فجر کی نماز (باجماعت) ادا کرنے میں کیا ثواب ہے تو ان دونوں کی جماعت میں ضرور آئیں اگرچہ انہیں سرینوں کے بل چل کر آنا پڑے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:654]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں اوّل رفاہ عام کے ثواب پر روشنی ڈالی گئی ہے اوربتلایا گیاہے کہ مخلوق الٰہی کو فائدہ پہنچانے کے لیے اگر کوئی ادنیٰ قدم بھی اٹھایا جائے توعنداللہ اتنی بڑی نیکی ہے کہ نجات اخروی کے لیے صرف وہی ایک کافی ہوسکتی ہے۔
پھر اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کا بیان کیاگیا۔
جن کی پانچ مذکورہ قسمیں ہیں۔
پھر اذان دینا اورپہلی صف میں حاضرہوکر باجماعت نماز ادا کرنا۔
پھر ظہر کی نماز اوّل وقت ادا کرنا۔
پھر صبح اور عشاءکی نمازوں کا خاص خیال رکھنا وغیرہ وغیرہ نیکیوں پر توجہ دلائی گئی۔
ظہر کی نماز گرمیوں میں دیر کرنے کی احادیث ذکر میں آچکی ہیں۔
یہاں گرمیوں کے علاوہ اوّل وقت پڑھنے کی فضیلت مذکور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 654   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:654  
654. (آپ نے فرمایا:) اگر لوگوں کو علم ہو کہ (نماز ظہر کے لیے) جلدی آنے میں کتنا ثواب ہے تو ضرور ایک دوسرے سے آگے بڑھیں۔ اور اگر جان لیں کہ عشاء اور فجر کی نماز (باجماعت) ادا کرنے میں کیا ثواب ہے تو ان دونوں کی جماعت میں ضرور آئیں اگرچہ انہیں سرینوں کے بل چل کر آنا پڑے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:654]
حدیث حاشیہ:
(1)
مذکورہ حدیث دراصل تین احادیث پر مشتمل ہے جسے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے ایک ہی سیاق میں بیان کردیا ہے۔
شاید انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح سنا ہوگا۔
(شرح ابن بطال: 280/2) (2)
تهجير کے معنی نماز کےلیے جلدی آنے کےہیں، لیکن یہاں نماز ظہر کےلیے اول وقت آنا مراد ہے، کیونکہ یہ لفظ ہاجرہ سے مشتق ہے جو دوپہر کے وقت گرمی کی شدت پر بولا جاتا ہے۔
نماز ظہر کا اول وقت یہی ہوتا ہے۔
مصنف کا رجحان اسی طرف ہے کہ نماز ظہر کو اول وقت میں ادا کیا جائے۔
اگرچہ سخت گرمی کے وقت میں نماز کو ٹھنڈا کرکے پڑھنے کا حکم ہے، لیکن یہ حکم و جوب کے لیے نہیں، کیونکہ اس حدیث میں ظہر کے لیے اول وقت آنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ اگر کوئی انسان دوپہر کے وقت مسجد کی طرف آتا ہے، مسجد میں ذکرو فکر کرتا ہے اور نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھنے کا انتظار کرتا ہے تو اس کے لیے بھی اللہ کے ہاں بہت بڑی فضیلت ہے۔
حدیث میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے سے مراد جلدی کرنا ہے، بھاگ کر آنا مقصود نہیں کیونکہ ایسا کرنا منع ہے۔
(فتح الباري: 182/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 654