صحيح البخاري
كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ -- کتاب: قسموں اور نذروں کے بیان میں
9. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ} :
باب: اللہ پاک کا سورۃ النور میں ارشاد ”یہ منافق اللہ کی بڑی پکی قسمیں کھاتے ہیں“۔
حدیث نمبر: 6655
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ، يُحَدِّثُ، عَنْ أُسَامَةَ، أَنَّ بِنْتًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِ، وَمَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، وسَعْدٌ، وأُبَيٌّ: أَنَّ ابْنِي قَدِ احْتُضِرَ فَاشْهَدْنَا، فَأَرْسَلَ يَقْرَأُ السَّلَامَ، وَيَقُولُ:" إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَمَا أَعْطَى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ مُسَمًّى، فَلْتَصْبِرْ وَتَحْتَسِبْ"، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ، تُقْسِمُ عَلَيْهِ، فَقَامَ وَقُمْنَا مَعَهُ، فَلَمَّا قَعَدَ رُفِعَ إِلَيْهِ، فَأَقْعَدَهُ فِي حَجْرِهِ، وَنَفْسُ الصَّبِيِّ جُئِّثُ، فَفَاضَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ سَعْدٌ: مَا هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" هَذِهِ رَحْمَةٌ يَضَعُهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ، وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ".
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، کہا ہم کو عاصم الاحول نے خبر دی، کہا میں نے ابوعثمان سے سنا، وہ اسامہ سے نقل کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی (زینب) نے آپ کو بلا بھیجا اس وقت آپ کے پاس اسامہ بن زید اور سعد بن عبادہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم بھی بیٹھے تھے۔ صاحبزادی صاحبہ نے کہلا بھیجا کہ ان کا بچہ مرنے کے قریب ہے آپ تشریف لائیے۔ آپ نے ان کے جواب میں یوں کہلا بھیجا میرا سلام کہو اور کہو سب اللہ کا مال ہے جو اس نے لے لیا اور جو اس نے عنایت فرمایا اور ہر چیز کا اس کے پاس وقت مقرر ہے، صبر کرو اور اللہ سے ثواب کی امید رکھو۔ صاحبزادی صاحبہ نے قسم دے کر پھر کہلا بھیجا کہ نہیں آپ ضرور تشریف لائیے۔ اس وقت آپ اٹھے، ہم لوگ بھی ساتھ اٹھے جب آپ صاحبزادی صاحبہ کے گھر پر پہنچے اور وہاں جا کر بیٹھے تو بچے کو اٹھا کر آپ کے پاس لائے۔ آپ نے اسے گود میں بٹھا لیا وہ دم توڑ رہا تھا۔ یہ حال پرملال دیکھ کر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ رونا کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ رونا رحم کی وجہ سے ہے اور اللہ اپنے جس بندے کے دل میں چاہتا ہے رحم رکھتا ہے یا یہ ہے کہ اللہ اپنے ان ہی بندوں پر رحم کرے گا جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6655  
6655. حضرت اسامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک صاحبزادی نے آپ کو پیغام بھیجا۔ اس وقت آپ کے پاس حضرت اسامہ بن زید، حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت ابی بن کعب ؓ بھی تھے۔ (پیغام یہ تھا) کہ میرا بیٹا قریب الوفات ہے، آپ تشریف لائیں۔ آپ نے جواب میں پیغام بھیجا کہ میرا سلام کہو اور کہو: بے شک سب اللہ کے مال ہے جو اس نے لے لیا اور جو عنایت فرمایا۔ اس کے ہاں ہر چیز کا ایک مقرر ہے، لہذا اسے چاہیئے کہ صبر کرے اور اللہ تعالٰی سے ثواب کی امید رکھے۔ صاحبزادی نے دوبارہ پیغام بھیجا اور آپ کو قسم دی کہ ضرور تشریف لائیں، چنانچہ آپ اسی وقت اٹھے ہم لوگ بھی آپ کے ساتھ تیار ہوئے، جب آپ وہاں جا کر بیٹھے تو بچہ اٹھا کر آپ کے پاس لایا گیا۔ آپ نے اسےاپنی آغوش میں بٹھایا جبکہ وہ دم توڑ رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے تو حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے پوچھا: اللہ کے رسول! یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6655]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں قسم دینے کا ذکر ہے یہی باب سے مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6655   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6655  
6655. حضرت اسامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک صاحبزادی نے آپ کو پیغام بھیجا۔ اس وقت آپ کے پاس حضرت اسامہ بن زید، حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت ابی بن کعب ؓ بھی تھے۔ (پیغام یہ تھا) کہ میرا بیٹا قریب الوفات ہے، آپ تشریف لائیں۔ آپ نے جواب میں پیغام بھیجا کہ میرا سلام کہو اور کہو: بے شک سب اللہ کے مال ہے جو اس نے لے لیا اور جو عنایت فرمایا۔ اس کے ہاں ہر چیز کا ایک مقرر ہے، لہذا اسے چاہیئے کہ صبر کرے اور اللہ تعالٰی سے ثواب کی امید رکھے۔ صاحبزادی نے دوبارہ پیغام بھیجا اور آپ کو قسم دی کہ ضرور تشریف لائیں، چنانچہ آپ اسی وقت اٹھے ہم لوگ بھی آپ کے ساتھ تیار ہوئے، جب آپ وہاں جا کر بیٹھے تو بچہ اٹھا کر آپ کے پاس لایا گیا۔ آپ نے اسےاپنی آغوش میں بٹھایا جبکہ وہ دم توڑ رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے تو حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے پوچھا: اللہ کے رسول! یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6655]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں حلف یا یمین کے بجائے لفظ قسم آیا ہے بلکہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ وہ صاجزادی آپ کو قسم دیتی تھیں کہ آپ ضرور تشریف لائیں۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1284) (2)
اس امر میں اختلاف ہے کہ أقسمت بالله یا صرف أقسمت کہنے سے قسم ہوتی ہے یا نہیں؟ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس طرح قسم ہو جاتی ہے اگرچہ اس کی نیت نہ ہو جبکہ اکثریت کا موقف ہے کہ جب قسم کی نیت ہو تو اس طرح قسم منعقد ہو جاتی ہے۔
اس حدیث سے اسی موقف کی تائید ہوتی ہے کہ جب صاجزادی نے قسم کے الفاظ سے آپ کو گزارش کی تو آپ اسے پورا کرنے کے لیے فوراً چل پڑے کیونکہ قسم کو پورا کرنا ایک مستحسن اور پسندیدہ عمل ہے۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 660/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6655