صحيح البخاري
كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ -- کتاب: قسموں اور نذروں کے بیان میں
18. بَابُ الْيَمِينِ فِيمَا لاَ يَمْلِكُ، وَفِي الْمَعْصِيَةِ، وَفِي الْغَضَبِ:
باب: ملک حاصل ہونے سے پہلے یا گناہ کی بات کے لیے یا غصہ کی حالت میں قسم کھانے کا کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: 6678
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: أَرْسَلَنِي أَصْحَابِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَسْأَلُهُ الْحُمْلَانَ، فَقَالَ:" وَاللَّهِ لَا أَحْمِلُكُمْ عَلَى شَيْءٍ"، وَوَافَقْتُهُ وَهُوَ غَضْبَانُ، فَلَمَّا أَتَيْتُهُ، قَالَ:" انْطَلِقْ إِلَى أَصْحَابِكَ، فَقُلْ:" إِنَّ اللَّهَ، أَوْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَحْمِلُكُمْ".
مجھ سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے ساتھیوں نے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سواری کے جانور مانگنے کے لیے بھیجا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں تمہارے لیے کوئی سواری کا جانور نہیں دے سکتا (کیونکہ موجود نہیں ہیں) جب میں آپ کے سامنے آیا تو آپ کچھ خفگی میں تھے۔ پھر جب دوبارہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے ساتھیوں کے پاس جا اور کہہ کہ اللہ تعالیٰ نے یا (یہ کہا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے لیے سواری کا انتظام کر دیا۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6678  
´ملک حاصل ہونے سے پہلے یا گناہ کی بات کے لیے یا غصہ کی حالت میں قسم کھانے کا کیا حکم ہے؟`
«. . . عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: أَرْسَلَنِي أَصْحَابِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَسْأَلُهُ الْحُمْلَانَ، فَقَالَ:" وَاللَّهِ لَا أَحْمِلُكُمْ عَلَى شَيْءٍ"، وَوَافَقْتُهُ وَهُوَ غَضْبَانُ، فَلَمَّا أَتَيْتُهُ، قَالَ:" انْطَلِقْ إِلَى أَصْحَابِكَ، فَقُلْ:" إِنَّ اللَّهَ، أَوْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَحْمِلُكُمْ . . .»
. . . ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے ساتھیوں نے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سواری کے جانور مانگنے کے لیے بھیجا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں تمہارے لیے کوئی سواری کا جانور نہیں دے سکتا (کیونکہ موجود نہیں ہیں) جب میں آپ کے سامنے آیا تو آپ کچھ خفگی میں تھے۔ پھر جب دوبارہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے ساتھیوں کے پاس جا اور کہہ کہ اللہ تعالیٰ نے یا (یہ کہا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے لیے سواری کا انتظام کر دیا۔ [صحيح البخاري/كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ: 6678]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6678کا باب: «بَابُ الْيَمِينِ فِيمَا لاَ يَمْلِكُ، وَفِي الْمَعْصِيَةِ، وَفِي الْغَضَبِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بات کو ظاہر فرمایا کہ ملکیت سے قبل غصہ کی حالت میں قسم کھا لے تو اس کا کیا کفارہ ہو گا؟ اور اگر وہ چیز بعد میں ملکیت میں داخل ہو جائے تو پھر اس مسئلے کا کیا حل ہو گا؟ تحت الباب حدیث میں سواریاں دینے کی قسم کا ذکر فرمایا ہے، اس وقت جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی تھی تو اس وقت سواریاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملک میں نہ تھیں، جب ملک میں آئیں اس وقت دینے سے نہ قسم ٹوٹی اور نہ کفارہ لازم ہوا، اس حدیث سے غصہ کی حالت میں قسم کھا لینے کی بھی مثال ہو سکتی ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«و الذى يظهر أن البخاري قصد غير هذا و هو أن النبى صلى الله عليه وسلم حلف أن لا يحملهم فلما حملهم راجعوه فى يمينه فقال: ما أنا حملتكم ولكنا الله حملكم، فبين أن يمينه انما انعقدت فيما يملك فلو حملهم على ما يملك لحنت و كفّر.» (1)
جو بات ظاہر ہے، وہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا قصد یہ نہیں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی کہ انہیں سواریاں نہ دیں گے، پھر جب عطا کیں تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم یاد دلائی تو فرمایا: یہ میں نے تمہیں سوار نہیں کرایا، بلکہ اللہ تعالی نے سوار کرایا ہے، تو بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کا تعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملک سے ہے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ملک کی سواریوں پر انہیں سوار کرتے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حانث ہو جاتے اور کفارہ ادا کرتے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلف اٹھایا تھا کہ میں آپ کو سواری نہیں دوں گا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سواری عطا فرمائی تو اپنے یمین میں ان کو لوٹایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سواریاں میں نے آپ کو نہیں دیں، بلکہ اللہ تعالی نے دی ہیں، مزید ابن المنیر رحمہ اللہ اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
«فلو حملهم على ما يملكه لكفّر، و لا خلاف فيما إذا حلف على شيئي و ليس فى ملكه انه لا يفعل فعلاً متعلقًا بذالك الشيئي مثل قوله: والله لا ركبت هذا البعير و لم يكن البعير فى ملكه، فلو ملكه و ركبه حنث و كفّر و ليس هذا من تعليق العتق على الملك.» (1)
پس اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس پر سوار کرتے جس کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ملک ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کفارہ دیتے، کہتے ہیں کہ اس امر میں اختلاف نہیں ہے کہ جس نے کسی شئی کی قسم اٹھائی اور وہ اس کے ملک میں نہیں کہ وہ کوئی ایسا فعل نہ کرے گا جو اس شئی کے ساتھ معلق ہو، مثلا کہے کہ اگر تم اس اونٹ پر سوار ہوتے تو واللہ میں یہ کروں گا، اور وہ اونٹ اس کی ملک میں نہ ہو تو اگر وہ کبھی اس کا مالک ہوا پھر اس پر سوار ہوا تو حانث ہوا، اور یہ ملک ہر قسم کو معلق کرنے کے باب سے نہیں۔
ان گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ سواریاں اللہ تعالی نے تمہیں عطا کی ہیں، اگر یہ سواریاں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ملک میں ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قسم کا کفارہ دیتے۔
اب باب اور حدیث میں مناسبت ظاہر ہے۔
دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے جو ترجمۃ الباب قائم فرمایا ہے، اس کے تین اجزاء ہیں، پہلا جزء «يمين» یعنی قسم، دوسرا جزء «في المعصية» یعنی نافرمانی، تیسرا جزء «في حالة الغضب» یعنی غصے میں قسم کھانا۔
ان تینوں اجزاء کو ثابت کرنے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب تین احادیث کا انتخاب فرمایا ہے اور تینوں سے باب کا مطلب ظاہر ہوتا ہے۔
پہلی حدیث جو سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ سے نقل فرمائی ہے، اس میں باب سے مطابقت کچھ یوں ہے، علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مطابقة للجزء الأول للترجمة و هو اليمين فيما لا يملك.» (2)
پہلے جزء سے حدیث کی مناسبت اس قسم سے ہے جس کا وہ مالک نہ ہو۔
دوسرے جزء کی مطابقت، دوسری حدیث سے یوں ہے۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«مطابقة للجزء الثاني للترجمة فى قوله: و الله لا أنفق على مسطح شيئًا أبدًا و هو مطابق لترك اليمين فى المعصية.» (3)
دوسرے جزء کی مناسبت دوسری حدیث کے ساتھ ان الفاظوں کے ساتھ ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: اللہ کی قسم! میں مسطح رضی اللہ عنہ پر اب کبھی خرچ نہیں کروں گا، یہ مطابقت ہے اس قسم کو ترک کرنے کی جو معاصیت پر قائم ہو۔
تیسرے جزء کی مناسبت تیسری حدیث کے ساتھ ان الفاظوں میں ہے، علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«مطابقة للجزء الثالث من الترجمة فى قوله: فوافقته و هو غضبان، فاستحملناه فخلف أن لا يحملنا.» (1)
تیسرے جزء کی مطابقت ان الفاظوں میں ہے: جب میں آپ کے پاس آیا تو آپ غصہ میں تھے، پھر ہم نے آپ سے سواری کا جانور مانگا تو آپ نے قسم کھا لی کہ آپ ہمارے لیے اس کا انتظام نہیں کر سکتے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 238   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6678  
6678. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: مجھے میرے ساتھیوں نے نبی ﷺ کے پاس بھیجا تاکہ میں آپ سے سواریوں کا مطالبہ کروں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہیں کسی چیز پر سوار نہیں کروں گا۔ اس وقت میں نے آپ ﷺ کو اس حالت میں پایا کہ آپ غصے میں تھے۔ پھر جب میں دوبارہ آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: تم اپنے ساتھیوں کے پاس جاؤ اور ان سے کہو: اللہ تعالٰی نے یا اللہ کے رسول ﷺ نے تمہیں سواریاں مہیا کی ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6678]
حدیث حاشیہ:
بعد میں انتظام ہو جانے پر آپ نے اپنی قسم کو توڑ دیا اور اس کا کفارہ ادا فرما دیا۔
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
حضرت ابوموسیٰ عبداللہ بن قیس اشعری مکہ میں اسلام لائے، حبشہ کی طرف ہجرت کی اور اہل سفینہ کے ساتھ حبشہ سے واپس ہوئے۔
20ھ میں حضرت فاروق نے ان کو بصرہ کا حاکم بنا دیا۔
52ھ میں وفات پائی۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6678   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6678  
6678. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: مجھے میرے ساتھیوں نے نبی ﷺ کے پاس بھیجا تاکہ میں آپ سے سواریوں کا مطالبہ کروں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہیں کسی چیز پر سوار نہیں کروں گا۔ اس وقت میں نے آپ ﷺ کو اس حالت میں پایا کہ آپ غصے میں تھے۔ پھر جب میں دوبارہ آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: تم اپنے ساتھیوں کے پاس جاؤ اور ان سے کہو: اللہ تعالٰی نے یا اللہ کے رسول ﷺ نے تمہیں سواریاں مہیا کی ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6678]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے تینوں اجزاء ثابت کیے جا سکتے ہیں، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قسم اٹھائی تو آپ اس وقت سواریوں کے مالک نہ تھے۔
٭ قسم اٹھاتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں تھے۔
٭ سواری مہیا کرنا نیکی ہے۔
اس کے ترک پر آپ نے قسم اٹھائی۔
ایسے حالات میں اگر قسم اٹھا لی جائے تو واقع ہو جاتی ہے۔
اس کا خلاف کرنے پر کفارہ دینا ہو گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قسم کا کفارہ دیا اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں نے اس سے یہی سمجھا اور دوبارہ واپس آ کر معذرت کی اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی وضاحت فرمائی کہ اگر میں کسی کام کے متعلق قسم اٹھا لوں، بعد میں مجھے اس کام کے اچھے ہونے کا پتا چلے تو میں وہ کام کر لیتا ہوں اور اپنی قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں۔
(فتح الباري: 689/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6678