صحيح البخاري
كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ -- کتاب: قسموں اور نذروں کے بیان میں
18. بَابُ الْيَمِينِ فِيمَا لاَ يَمْلِكُ، وَفِي الْمَعْصِيَةِ، وَفِي الْغَضَبِ:
باب: ملک حاصل ہونے سے پہلے یا گناہ کی بات کے لیے یا غصہ کی حالت میں قسم کھانے کا کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: 6679
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ. ح وحَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ النُّمَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ الْأَيْلِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، وَعَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ، وَعُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" حِينَ قَالَ لَهَا أَهْلُ الْإِفْكِ مَا قَالُوا، فَبَرَّأَهَا اللَّهُ مِمَّا قَالُوا، كُلٌّ حَدَّثَنِي طَائِفَةً مِنَ الْحَدِيثِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالإِفْكِ سورة النور آية 11 الْعَشْرَ الْآيَاتِ كُلَّهَا فِي بَرَاءَتِي". فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ: وَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحٍ لِقَرَابَتِهِ مِنْهُ، وَاللَّهِ لَا أُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحٍ شَيْئًا أَبَدًا بَعْدَ الَّذِي قَالَ لِعَائِشَةَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: وَلا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى سورة النور آية 22 الْآيَةَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: بَلَى وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لِي، فَرَجَعَ إِلَى مِسْطَحٍ النَّفَقَةَ الَّتِي كَانَ يُنْفِقُ عَلَيْهِ، وَقَالَ: وَاللَّهِ لَا أَنْزِعُهَا عَنْهُ أَبَدًا.
ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے (دوسری سند) اور ہم سے حجاج نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن عمر نمیری نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن یزید ایلی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زہری سے سنا، کہا کہ میں نے عروہ بن زبیر، سعید بن المسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ رضی اللہ عنہم سے سنا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان کی بات کے متعلق، جب ان پر اتہام لگانے والوں نے اتہام لگایا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اس اتہام سے بری قرار دیا تھا، ان سب لوگوں نے مجھ سے اس قصہ کا کوئی ایک ٹکڑا بیان کیا (اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ) پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «إن الذين جاءوا بالإفك‏» کہ بلاشبہ جن لوگوں نے جھوٹی تہمت لگائی ہے دس آیتوں تک۔ جو سب کی سب میری پاکی بیان کرنے کے لیے نازل ہوئی تھیں۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، مسطح رضی اللہ عنہ کے ساتھ قرابت کی وجہ سے ان کا خرچ اپنے ذمہ لیے ہوئے تھے، کہا کہ اللہ کی قسم اب کبھی مسطح پر کوئی چیز ایک پیسہ خرچ نہیں کروں گا۔ اس کے بعد کہ اس نے عائشہ رضی اللہ عنہا پر اس طرح کی جھوٹی تہمت لگائی ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ولا يأتل أولو الفضل منكم والسعة أن يؤتوا أولي القربى‏» الخ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا، کیوں نہیں، اللہ کی قسم میں تو یہی پسند کرتا ہوں کہ اللہ میری مغفرت کر دے۔ چنانچہ انہوں نے پھر مسطح کو وہ خرچ دینا شروع کر دیا جو اس سے پہلے انہیں دیا کرتے تھے اور کہا کہ اللہ کی قسم میں اب خرچ دینے کو کبھی نہیں روکوں گا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 785  
´ «بسم الله الرحمن الرحيم» زور سے نہ پڑھنے کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
عروہ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہوئے واقعہ افک کا ذکر کیا، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اور آپ نے اپنا چہرہ کھولا اور فرمایا: «أعوذ بالسميع العليم من الشيطان الرجيم * إن الذين جاءوا بالإفك عصبة منكم‏» ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے، اسے ایک جماعت نے زہری سے روایت کیا ہے مگر ان لوگوں نے یہ بات اس انداز سے ذکر نہیں کی اور مجھے اندیشہ ہے کہ استعاذہ کا معاملہ خود حمید کا کلام ہو۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 785]
785۔ اردو حاشیہ:
امام صاحب کا اس حدیث کو منکر بتا کر یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے تعوذ کا طریقہ یہ ثابت ہے کہ اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا نام بھی آئے، کیونکہ قرآن میں ہے: «فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ» [النحل۔ 98/16]
اللہ کے ذریعے سے شیطان مردود سے پناہ مانگو۔ اور احادیث میں بھی «اعوذ بالله من الشيطان الرجيم» اور «اعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم» کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ «اعوذ بالسمع العليم» نہیں ہے، یہ الفاظ صرف حمید راوی بیان کرتا ہے، دوسرے راویوں نے اس طرح بیان نہیں کیا ہے۔ اس لئے یہ حدیث امام ابوداؤد رحمہ اللہ کے نزدیک منکر ہے۔ لیکن صاحب عون المعبود فرماتے ہیں کہ اس لہاظ سے یہ روایت منکر نہیں شاذ ہو گی۔ اور شاذ روایت وہ ہوتی ہے، جس میں مقبول راوی اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کے مخالف بیان کرے۔ (اور اس میں ایسا ہی ہے۔) اور منکر روایت میں ضعیف راوی ثقہ راوی کی مخالفت کرتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 785   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1970  
´عورتوں کے درمیان باری مقرر کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1970]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بیویوں سےمعاملات میں زیادہ سے زیادہ ممکن حد تک مساوات کاسلوک کرنا اور انصاف قائم رکھنا چاہیے۔

(2)
جب ایک چیز کےمستحق ایک سے زیادہ افراد ہوں اور وہ چیز قابل تقسیم نہ ہو تو قرعہ اندازی سےفیصلہ کیا جاتا سکتا ہے۔
قرعہ اندازی شرعاً جائز ہے بشرطیکہ معاملہ قمار (جوئے)
سے تعلق نہ رکھتا ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1970   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 912  
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر پر روانہ ہونے کا ارادہ فرماتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے۔ پس جس بیوی کے نام کا قرعہ نکلتا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم سفر ہوتی۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 912»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الهبة، باب هبة المرأة لغير زوجها.....، حديث:2593، ومسلم، التوبة، باب في حديث الإفك.....، حديث:2770.»
تشریح:
اس حدیث سے کسی مبہم معاملے کے تصفیے کے لیے قرعہ اندازی کا ثبوت ملتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 912   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3180  
´سورۃ النور سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب میرے بارے میں افواہیں پھیلائی جانے لگیں جو پھیلائی گئیں، میں ان سے بےخبر تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور میرے تعلق سے ایک خطبہ دیا، آپ نے شہادتین پڑھیں، اللہ کے شایان شان تعریف و ثنا کی، اور حمد و صلاۃ کے بعد فرمایا: لوگو! ہمیں ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری گھر والی پر تہمت لگائی ہے، قسم اللہ کی! میں نے اپنی بیوی میں کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی، انہوں نے میری بیوی کو اس شخص کے ساتھ متہم کیا ہے جس کے بارے میں اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی برائی نہیں جانی، وہ میرے گھر ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3180]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
میں نے کبھی کسی عورت کا آنچل تک نہیں سرکایا ہے چہ جائے گی میں ایسی گستاخی اورجسارت کروں۔

2؎:
صبر ہی بہتر ہے اور جو تم کہتے،
بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی معاون ومددگار ہے۔

3؎:
اصحاب فضل اور فراخی والے قسم نہ کھائیں (النور: 22)

4؎:
رشتہ والوں،
مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دیں گے۔
(النور: 22)

5؎:
کیا تمہیں پسند نہیں ہے کہ اللہ تمہیں بخش دے،
اللہ بخشنے والا مہربان ہے (النور: 22)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3180   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6679  
6679. امام زہری سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبید اللہ بن عتبہ سے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے متعلق ایک حدیث سنی جب ان پر بہتان تراشوں نے طوفان باندھا اور اللہ تعالٰی نے انہیں اس بہتان سے پاک قرار دیا اور ان کی باتوں سے بری کیا۔ ان میں سے ہر ایک نے مجھے حدیث کا کچھ حصہ بتایا کہ سیدہ عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں کہ اللہ تعالٰی نے ﴿إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ﴾ سے دس آیات حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں مسطح پر خرچ نہیں کروں گا جبکہ وہ مسطح پر قرابت داری کی وجہ سے خرچ کیا کرتے تھے۔ یہ اس لیے کیا کہ انہوں نے سیدہ عائشہ‬ ؓ پ‬ر بہتان لگانے میں حصہ لیا تھا۔ اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: تم میں سے اہل فضل ووسعت قسمیں نہ کھائیں کہ وہ اپنے اقارب پر خرچ نہیں کریں گے۔ نزول آیات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: اللہ کی قسم!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6679]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوبکر نے اپنی قسم کو کفارہ ادا کر کے توڑ دیا باب سے یہی مطابقت ہے۔
حضرت مسطح بن اثاثہ قریشی مطلبی ہیں۔
34ھ میں بعمر 56سال وفات پائی۔
سبحان اللہ ایمانداری اور خدا ترسی حضرت ابوبکر صدیق پر ختم تھی باوجودیکہ مسطح نےایسا بڑا قصور کیا تھا کہ ان کی پیاری بیٹی پر جو خود مسطح کی بھی بھتیجی ہوتی تھیں اس قسم کا طوفان جوڑا اور قطع نظر اس سلو ک کے جو حضرت ابوبکر صدیق ان سے کیا کرتے تھے اور قطع نظر احسان فراموشی کے انہوں نے قرابت کا بھی کچھ لحاظ نہ کیا۔
حضرت عائشہ ؓ کی بدنامی خود مسطح کی بھی ذلت اورخواری تھی مگر وہ شیطان کے چکمہ میں آگئے۔
شیطان اسی طرح آدمی کو ذلیل کرتا ہے، اس کی عقل اور فہم بھی سلب ہو جاتی ہے۔
اگر کوئی دوسرا آدمی ہوتا تو مسطح نے یہ حرکت ایسی کی تھی کہ ساری عمر سلوک کرنا تو کجا ان کی صورت بھی دیکھنا گوارہ نہ کرتا مگر آخر میں حضرت ابوبکر کی خداترسی اور مہربانی اور شفقت پر قربان کہ انہوں نے مسطح کا معمول بدستور جاری کر دیا اور ان کےقصور سےچشم پوشی کی۔
ترجمہ باب یہیں سےنکلتا ہے کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق نےایک نیکی کی بات یعنی عزیزوں سے سلوک ترک کرنے پر قسم کھائی تھی تو اس قسم کو توڑ ڈالنے کا حکم ہوا پھر کوئی گناہ کرنے پر قسم کھائے اس کو تو بطریق اولیٰ یہ قسم توڑ ڈالنا ضرور ی ہوگا۔
یہ غصہ میں قسم کھانے کی بھی مثال ہو سکتی ہے کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق نے پہلے غصہ ہی میں قسم کھالی تھی کہ میں مسطح سے سلوک نہ کروں گا۔
(تقریرمولانا وحیدالزمان مرحوم)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6679   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6679  
6679. امام زہری سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبید اللہ بن عتبہ سے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے متعلق ایک حدیث سنی جب ان پر بہتان تراشوں نے طوفان باندھا اور اللہ تعالٰی نے انہیں اس بہتان سے پاک قرار دیا اور ان کی باتوں سے بری کیا۔ ان میں سے ہر ایک نے مجھے حدیث کا کچھ حصہ بتایا کہ سیدہ عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں کہ اللہ تعالٰی نے ﴿إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ﴾ سے دس آیات حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں مسطح پر خرچ نہیں کروں گا جبکہ وہ مسطح پر قرابت داری کی وجہ سے خرچ کیا کرتے تھے۔ یہ اس لیے کیا کہ انہوں نے سیدہ عائشہ‬ ؓ پ‬ر بہتان لگانے میں حصہ لیا تھا۔ اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: تم میں سے اہل فضل ووسعت قسمیں نہ کھائیں کہ وہ اپنے اقارب پر خرچ نہیں کریں گے۔ نزول آیات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: اللہ کی قسم!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6679]
حدیث حاشیہ:
(1)
جن لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگایا تھا ان میں حضرت مسطح بھی شامل تھے، حالانکہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کفالت میں تھے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے غصے میں آ کر قسم کھائی کہ وہ آئندہ ان پر خرچ نہیں کریں گے۔
ان کی یہ قسم ترک طاعت (نیکی نہ کرنے)
پر تھی، جس پر انہیں قائم نہیں رہنے دیا گیا۔
معصیت کی قسم پر تو بالاولیٰ قائم رہنے کی اجازت نہیں ہے۔
(2)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ قسم بحالت غصہ کھائی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی غصے کی حالت میں قسم کھائی تھی لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قسم کھائی تو آپ اس وقت کسی چیز کے مالک نہ تھے اور نہ اسے پورا ہی کر سکتے تھے جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قسم اٹھاتے وقت مال و وسعت والے تھے اور خرچ کرنے کی ہمت بھی رکھتے تھے۔
بہرحال ایسے حالات میں قسم اٹھانے سے وہ منعقد ہو جاتی ہے اور اس کے خلاف کرنے میں کفارہ بھی دینا ہو گا۔
(فتح الباري: 690/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6679