صحيح البخاري
كِتَاب كَفَّارَاتِ الْأَيْمَانِ -- کتاب: قسموں کے کفارہ کے بیان میں
4. بَابُ يُعْطِي فِي الْكَفَّارَةِ عَشَرَةَ مَسَاكِينَ، قَرِيبًا كَانَ أَوْ بَعِيدًا:
باب: کفارہ میں دس مسکینوں کو کھانا دیا جائے خواہ وہ قریب کے رشتہ دار ہوں یا دور کے بلکہ قریب والوں کو کھلانے میں ثواب اور بھی زیادہ ہے۔
حدیث نمبر: 6711
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: هَلَكْتُ، قَالَ:" وَمَا شَأْنُكَ؟"، قَالَ: وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ:" هَلْ تَجِدُ مَا تُعْتِقُ رَقَبَةً؟"، قَالَ: لَا، قَالَ:" فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ؟"، قَالَ: لَا، قَالَ:" فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُطْعِمَ سِتِّينَ مِسْكِينًا؟"، قَالَ: لَا أَجِدُ، فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهِ تَمْرٌ، فَقَالَ:" خُذْ هَذَا فَتَصَدَّقْ بِهِ"، فَقَالَ: أَعَلَى أَفْقَرَ مِنَّا؟ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا أَفْقَرُ مِنَّا، ثُمَّ قَالَ:" خُذْهُ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے حمید بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں تو تباہ ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہے؟ کہا کہ میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کر لی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہارے پاس کوئی غلام ہے جسے آزاد کر سکو؟ انہوں نے کہا نہیں۔ دریافت فرمایا، کیا متواتر دو مہینے تم روزے رکھ سکتے ہو؟ کہا کہ نہیں، دریافت فرمایا کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ عرض کیا کہ اس کے لیے بھی میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے لے جا اور صدقہ کر۔ انہوں نے پوچھا کہ اپنے سے زیادہ محتاج پر؟ ان دونوں میدان کے درمیان ہم سے زیادہ محتاج کوئی نہیں ہے۔ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا اسے لے جا اور اپنے گھر والوں کو کھلا دے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 261  
´قصداً (جان بوجھ کر) روزہ توڑنے کا کفارہ`
«. . . ان رجلا افطر فى رمضان فى زمان النبى صلى الله عليه وسلم فامره رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يكفر بعتق رقبة او صيام شهرين متتابعين او إطعام ستين مسكينا، فقال: لا اجد، فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرق تمر، فقال: خذ هذا فتصدق به. فقال: يا رسول الله، ما احد احوج إليه مني، فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بدت انيابه ثم قال: كله. . . .»
. . . نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے (اپنی بیوی کے ساتھ، دن میں جماع کرنے کی وجہ سے) روزہ توڑ دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ ایک غلام آزاد کرے یا دو مہینوں کے لگاتار روزے رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ اس نے کہا: میں یہ نہیں کر سکتا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: یہ لے لو اور اسے صدقہ کر دو۔ اس نے کہا: یا رسول اللہ! مجھ سے زیادہ (مدینے میں) کوئی ضرورت مند نہیں ہے جو اس کا محتاج ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے حتی کہ آپ کے دندان مبارک نظر آنے لگے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے کھا لو۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 261]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 111/83، من حديث ما لك به ورواه البخاري 1936، من حديث ابن شهاب الزهري به]

تفقه:
➊ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر بغیر کسی شرعی عذر کے روزہ توڑ دے تو اس کے بارے میں ابوالشعثاء جابر بن زید اور سعید بن جبیر نے فرمایا: وہ اس کے بدلے میں ایک روزہ رکھے گا۔ [مصنف ابن ابي شيبه 105/3ح 9775 وسنده صحیح، وطبعه جديدہ 110/3 ح 12576،، وسنده صحیح]
● ابراہیم نخعی نے کہا:
وہ ایک روزہ رکھے اور اللہ سے معافی مانگے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 12577 وسنده صحيح]
➋ بعض علماء نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمداً روزہ توڑنے والا ایک روزے کے بدلے میں دو مہینے روزے رکھے گا۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 30   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1671  
´رمضان کا کوئی روزہ چھوڑنے کا کفارہ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا، اس نے عرض کیا: میں ہلاک ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کس چیز نے ہلاک کر دیا؟ اس نے کہا: میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کر لی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ایک غلام آزاد کرو، اس نے کہا: میرے پاس غلام آزاد کرنے کی طاقت نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا تو دو مہینے لگاتار روزے رکھو، اس نے کہا: میں اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ اس نے کہا: مجھے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1671]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
روزے کی حالت میں جان بوجھ کر مباشرت کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
اور کفارہ بھی لازم ہوجاتا ہے۔

(2)
کفارے کی مقدارایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے۔
اگر اس کی طاقت نہ ہو یا غلام دستیاب نہ ہو۔
تو مسلسل د و ماہ روزے رکھے یہ بھی نہ ہوسکے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے
(3)
جوشخص کسی بھی طرح کفارہ نہ ادا کرسکتا ہو۔
اس سے کفارہ ساقط ہوجاتا ہے۔
کیونکہ اس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم نہیں دیا کہ فی الحال یہ کھجوریں تم خود کھا لو بعد میں کفارہ ادا کردینا۔

(4)
اگر کسی مفلس آدمی پر کسی شرعی غلطی کی وجہ سے کفارہ لازم آجائے تو مسلمانوں سے چاہیے کہ اس سے تعاون کریں تا کہ وہ کفارہ ادا کرسکیں۔

(5)
جوشخص اپنی غلطی پر پشیمان ہو۔
اسے مزید شرمندہ کرنے کی بجائے اس پر شفقت کا اظہار کرنا چاہیے۔
اور اس کے مسئلے کا شرعی حل پیش کرنا چاہیے۔
حدیث میں مذکور شخص کی پریشانی تو اس کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ اس نے کہا (هلكت)
میں تو برباد ہوگیا ہوں۔
اس کی کیفیت ایک اور روایت میں زیادہ واضح طور پر بیان کی گئی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ایک اعرابی آیا وہ چہرا پیٹ رہا تھا۔
اور بال کھسوٹ رہا تھا۔
اور کہہ رہا تھا میں تو برباد ہی ہو گیا ہوں۔
۔
۔ (مسند أحمد: 516/2)

(6)
اس ٹوکرے میں کتنی کھجوریں تھیں۔
؟ اس کے بارے میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے۔
کہ ان کی مقدار پندرہ اور بیس صاع کے درمیان تھی۔ (موطأإمام مالك، الصیام، باب کفارة من أفطرفی رمضان 1/274، حدیث: 673)
سنن ابو داؤد میں بھی ایک روایت میں پندرہ صاع اور دوسری روایت میں بیس صاع مروی ہے۔ (سنن ابو داؤدں الصیام، باب کفارة من أتی أهله فی رمضان، حدیث: 295)
 اس کی مقدار اندازاً ایک من بنتی ہے۔

(7) (وَصُمْ يَوْماً مَكَانَهُ)
اس کی جگہ ایک روزہ رکھ لینا اس جملے کے بارے میں محمد فواد عبد الباقی نے لکھا ہے کہ اس سند میں ایک راوی عبد الجبار بن عمر ہے۔
جو ضعیف ہے۔
لیکن شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس جملے کی بابت إرواء الغلیل میں تفصیلاً بحث کی ہے۔
اور آخر میں یوں لکھا ہے کہ (وَبِمَجْمُوع هٰذِهِ الطُّرُق تعرف أنَّ لهٰذِهِ الزَّيَادَةِ اصلا)
 یعنی اس روایت کے تمام طرق کو سامنے رکھا جائے۔
تو معلوم ہوتا ہے کہ اس جملے کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (إرواءالغلیل: 93، 88/4،   رقم: 939)
 لہٰذا احتیاط اور تقویٰ اسی میں ہے۔
کہ جو روزہ توڑا گیا ہے۔
اس کے بدلے روزہ رکھ کر ہی مہینے کے روزوں کی تعداد پوری کی جا سکتی ہے۔

(8)
مذکورہ کفارہ صرف جماع کی صورت میں ہی لازم آتا ہے۔
اس کے علاوہ دیگر صورتوں میں یہ لازم نہیں آتا۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اصحاب کسی بھی صورت میں روزہ توڑ دینے پر کفارہ لازم گردانتے ہیں۔
جبکہ دیگر ائمہ مذکورہ کفارہ صرف جماع سے خاص گردانتے ہیں۔
یہی موقف زیادہ راحج معلوم ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں شیخ ابن العثمین رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ کفارے کے ساتھ اسے روزے کی قضا بھی دینا ہوگی۔ (دیکھیے فتاویٰ اسلامیہ (اردو)
۔ 2/191 مطبوعہ دارالسلام)

   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1671   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 549  
´(روزے کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے اللہ کے رسول! میں ہلاک ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کس چیز نے تجھے ہلاک کیا؟ اس نے کہا میں رمضان میں اپنی عورت سے مباشرت کر بیٹھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تجھ میں اتنی طاقت ہے کہ ایک گردن کو آزاد کر دے؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو طاقت رکھتا ہے کہ دو ماہ کے متواتر روزے رکھے؟ اس نے کہا، نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تیرے پاس اتنا مال ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکے؟ اس نے کہا نہیں۔ پھر وہ بیٹھ گیا۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو خیرات کر دو۔ اس نے کہا کیا اپنے سے زیادہ محتاج پر (خیرات کروں)؟ کیونکہ دو سنگلاخ پہاڑوں (مدینہ) کے مابین کوئی گھر والا ہم سے زیادہ محتاج نہیں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھیں ظاہر ہو گئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اسے اپنے گھر والوں کو کھلا دو۔ اسے ساتوں نے روایت کیا ہے اور الفاظ مسلم کے ہیں۔ [بلوغ المرام/حدیث: 549]
لغوی تشریح 549:
جَاءَ رَجُلٌ ایک آدمی آیا۔ اس شخص کا نام سلمان یا سلمہ بن صخر بیاضی تھا۔
وَقَعتُ عَلَی امرَأَتِی میں اپنی بیوی پر واقع ہو گیا، یعنی جماع کر لیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث میں ہے کہ اس آدمی نے کہا: میں نے اس سے وطی کی ہے۔ اور اس کا یہ کہنا کہ ھَلَکتُ میں ہلاک ہو گیا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ روزے کی حالت میں بیوی سے جماع کرنے کی حرمت سے باخبر تھا اور اسنے عمدًا یہ حرکت کی، اس لیے اس حدیث سے اس شخص کے متعلق استنباط نہیں کیا جا سکتا جس نے بھول کر جماع کیا ہو۔ ٘ رَقَبَۃٌ غلام یا لونڈی۔ یہ ٘ مَا تُعتِقُ میں مَا کا بدل ہونے کیوجہ سے منصوب ہے۔
فَأُتِیَ صیغۂ مجہول ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔
بِعَرَقٍ عین اور را دونوں پر فتحہ ہے۔ بڑا ٹوکرا۔
فِیہِ تَمرٌ جس میں پندرہ صاع، یعنی ساٹھ مد کھجوریں تھیں۔
أعَلٰی أَفقَرَ أَعَلٰی میں ھمزہ استفہام ہے اور علی حرفِ جر ہے، یعنی کیا میں ایسے شخص پر صدقہ کروں جو مجھ سے اور میرے گھر والوں سے بھی زیادہ محتاج ہو؟
فَمَا بَینَ لَابَتَیھَا میں لَابَتَیھَا، لَابَۃ کا تثنیہ ہے اور با پر فتحہ ہے، یعنی وہ زمین جس میں سیاہ بوسیدہ پتھر ہوں، یوں محسوس ہوکہ جیسے اسے آگ نے جلایا ہو۔ اور ھَا کی ضمیر مدینہ طیبہ کیطرف راجع ہے۔ اور لَابَتَان سے دو مشہور و معروف حرے مراد ہیں جو مدینہ طیبہ کے شرقی اور غربی جانب ہیِں۔ ایک کا نام حَرَّۃُ الوَاقِم اور دوسرے کا حَرَّۃُ الوَبرَہ ہے۔ اور مدینہ طیبہ ان دونوں کے درمیان واقع ہے، لہٰذا لَابَتَینَ سے مراد مدینہ منورہ ہے، یعنی مدینہ میں کوئی اہلِ خانہ مجھ سے زیادہ ان کھجوروں کا محتاج نہیں۔
أَنیَابُہُ یہ نَابٌ کی جمع ہے۔ اور یہ وہ دانت ہوتے ہیں جو رباعی کے ساتھ ملے ہوتے ہیں۔ اور رباعی، ثنایہ کے ساتھ والے دانتوں کو کہتے ہیں۔ اور ثنایا کا اطلاق اوپر اور نیچے کے سامنے والے دو دو دانتوں پر ہوتا ہے۔ ٘ أَطعِمہُ، أَھلَکَ یہ اپنے گھر والوں کو کھلاؤ۔

فوائد و مسائل 549:
➊ اس حدیث سے امام اوزاعی رحمہ اللہ اور ایک قول کے مطابق امام احمد رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ تنگ دست پر کفارہ نہیں۔ مگر امام مالک، امام شافعی، امام ابوحنیفہ، امام ثوری اور امام ابوثور رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے یہ استدلال درست نہیں، کفارہ جب میسر بہرنوع ادا کیا جائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کفارے کا ذکر کیا۔ تنگدستی کی بنا پر کھجوریں اسے بطورِ صدقہ کے دیں، کفارہ کے طور پر نہیں۔ اس حدیث میں قطعًا ذکر نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کفارے کو ساقط قرار دیا ہے۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں جو کفارے کے سقوط کا ذکر ہے وہ سخت ضعیف اور ناقابلِ استدلال ہے۔
➋ اس حدیث میں گو روزے کی قضا ادا کرنے کا حکم نہیں مگر دوسری احادیث میں قضا کا حکم موجود ہے جیسا کہ سنن ابنِ ماجہ کی روایت میں ہے: ٘ وَصُم یَومًا مَکَانَہُ اس کی جگہ ایک روزہ رکھ لینا۔ شیخ البانی رحمہ اللہ اس جملے کی بابت لکھتے ہیں کہ اس روایت کے تمام طرق سامنے رکھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے۔ دیکھیے: [ أرواء الغليل: 93-88/4، رقم: 939]
اس بنا پر ائمہ اربعہ اور جمھور علماء ایسی صورت میں مردوزن دونوں کے لیے روزہ رکھنے کے قائل ہیں۔ اور احتیاط اور تقویٰ اسی میں ہے کہ جو روزہ توڑا گیا ہے اس کے بدلے میں روزہ رکھ کر مہینے کی تعداد پوری کی جائے، تاہم اگر عورت روزہ دار نہ ہو تو اس پر قضا نہیں۔
➌ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ذکر کیا ہے کہ بعض علماء نے اس حدیث پر دو جلدوں میں بحث کی ہے اور اس سے ایک ہزار فوائد و مسائل کا استنباط کیا ہے۔

   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 549   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2392  
´رمضان میں بیوی سے جماع کے کفارہ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رمضان میں روزہ توڑ دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک غلام آزاد کرنے، یا دو مہینے کا مسلسل روزے رکھنے، یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم فرمایا، وہ شخص کہنے لگا کہ میں تو (ان میں سے) کچھ نہیں پاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: بیٹھ جاؤ، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کا ایک تھیلا آ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں لے لو اور صدقہ کر دو، وہ کہنے لگا: اللہ کے رسول! مجھ سے زیادہ ضرورت مند تو کوئی ہے ہی نہیں، اس پر آپ صلی الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2392]
فوائد ومسائل:
(1) رمضان کے دن میں جماع کرنے سے مندرجہ بالا تین کفارات میں سے ترتیب وار ایک لازم آتا ہے۔
یعنی اولا گردن آزاد کرنا، یہ نہ ہو سکے تو دو ماہ کے متواتر روزے رکھنا اور یہ بھی نہ ہو سکے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔
اور استغفار سے کسی صورت غافل نہ ہو۔
اور جمہور علماء کا کہنا ہے کہ یہ کفارہ صرف جماع کی بنا پر آتا ہے نہ کہ کسی اور صورت میں روزہ توڑنے پر۔
جبکہ امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیھم اور ان کے اصحاب کسی بھی صورت میں روزہ توڑنے پر مذکورہ کفارہ واجب کرتے ہیں۔

(2) یہ کفارہ ادا کرنے میں ترتیب کا لحاظ رکھا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کے عذر پر دوسرا اور پھر تیسرا کفارہ بتایا ہے۔

(3) مساکین کو کھانا کھلانے کی صورت میں ساٹھ کا عدد پورا کیا جائے، نہ کہ چند مساکین کو مختلف اوقات میں کھلا کر عدد پورا کرے۔

(4) اس واقعہ میں علماء کا اختلاف ہے۔
ایک جماعت کا رجحان ہے کہ مذکورہ صحابی کو فقر کی بنا پر کفارہ معاف فرما دیا تھا جبکہ دیگر کہتے ہیں کہ کفارہ کو وسعت پانے تک مؤخر کیا گیا تھا، بالکل معاف نہیں فرمایا تھا۔
واللہ اعلم
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2392   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6711  
6711. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: میں تو ہلاک ہو گیا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا بات ہے؟ اس نے کہا: میں نے ماہ رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کر لی ہے۔ آپ نے فرمایا: تیرے پاس کوئی غلام ہے جسے تو آزاد کر سکے؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے پوچھا: کیا تو متواتر دو ماہ روزے رکھ سکتا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں آپ نے فرمایا: اسے لے جاؤ اور صدقہ کر دو۔ اس نے کہا: اپنے سے زیادہ محتاج پر؟ جبکہ مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کے درمیان ہم سے زیادہ کوئی محتاج نہیں ہے۔ آپ ﷺ نےفرمایا: اسے لے جاؤ اور اپنے اہل خانہ کو کھلا دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6711]
حدیث حاشیہ:
گھر والوں میں دور اور نزدیک کے سب رشتہ دار آگئے گو یہ حدیث کفارہ رمضان کے باب میں ہے مگر قسم کے کفارے کو بھی اسی پر قیاس کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6711   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6711  
6711. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: میں تو ہلاک ہو گیا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا بات ہے؟ اس نے کہا: میں نے ماہ رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کر لی ہے۔ آپ نے فرمایا: تیرے پاس کوئی غلام ہے جسے تو آزاد کر سکے؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے پوچھا: کیا تو متواتر دو ماہ روزے رکھ سکتا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں آپ نے فرمایا: اسے لے جاؤ اور صدقہ کر دو۔ اس نے کہا: اپنے سے زیادہ محتاج پر؟ جبکہ مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کے درمیان ہم سے زیادہ کوئی محتاج نہیں ہے۔ آپ ﷺ نےفرمایا: اسے لے جاؤ اور اپنے اہل خانہ کو کھلا دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6711]
حدیث حاشیہ:
(1)
کفارۂ قسم کا ایک مصرف دس مساکین کو کھانا کھلانا ہے۔
اس میں عموم ہے کہ وہ مساکین قریبی رشتے دار ہوں یا دور کی تعلق داری رکھتے ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارۂ رمضان دینے والے سے فرمایا کہ یہ (کھجوروں کا ٹوکرا)
لے جاؤ اور اپنے گھر والوں کو کھلا دو۔
گھر والوں میں دور اور نزدیک کے تمام رشتے دار آ جاتے ہیں۔
(2)
اگرچہ یہ حدیث کفارۂ رمضان کے متعلق ہے مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم کے کفارے کو اس پر قیاس کرتے ہوئے مذکورہ حکم مستنبط فرمایا۔
جب قریبی رشتے دار مساکین کو کفارہ دیا جا سکتا ہے تو دور والے تعلق دار تو اس کے زیادہ حق دار ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مذکورہ حکم کا استنباط اس شخص کی رائے کے مطابق ہے جو اہل خانہ کو کفارہ دینے کا موقف رکھتا ہے لیکن جس کی رائے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بطور صدقہ دیا، کفارہ جوں کا توں اس کے ذمے تھا، اس رائے کے مطابق یہ استنباط صحیح نہیں ہو گا۔
(فتح الباري: 727/11) (3)
واضح رہے کہ کفارہ ان اقرباء کو دیا جا سکتا ہے جن کے نان و نفقہ کی ذمہ داری کفارہ دینے والے پر نہ ہو، اگر ان کی کفالت اس کے ذمے ہے تو انہیں کفارہ دینا جائز نہیں ہے جیسا کہ بیوی کو زکاۃ دینا جائز نہیں ہے۔
واللہ أعلم (عمدة القاري: 754/15)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6711