صحيح البخاري
كِتَاب الْفَرَائِضِ -- کتاب: فرائض یعنی ترکہ کے حصوں کے بیان میں
4. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ تَرَكَ مَالاً فَلأَهْلِهِ»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کہ جس نے مال چھوڑا ہو وہ اس کے اہل خانہ کے لیے ہے۔
حدیث نمبر: 6731
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، فَمَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، وَلَمْ يَتْرُكْ وَفَاءً، فَعَلَيْنَا قَضَاؤُهُ، وَمَنْ تَرَكَ مَالًا، فَلِوَرَثَتِهِ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو یونس بن یزید ایلی نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، کہا مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں مومنوں کا خود ان سے زیادہ حقدار ہوں۔ پس ان میں سے جو کوئی قرض دار مرے گا اور ادائیگی کے لیے کچھ نہ چھوڑے گا تو ہم پر اس کی ادائیگی کی ذمہ داری ہے اور جس نے کوئی مال چھوڑا ہو گا وہ اس کے وارثوں کا حصہ ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2090  
´ترکہ کے مستحق میت کے وارث ہیں۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے (مرنے کے بعد) کوئی مال چھوڑا تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جس نے ایسی اولاد چھوڑی جس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے تو اس کی کفالت میرے ذمہ ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الفرائض/حدیث: 2090]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
ایسے مسلمان یتیموں اوربیواؤں کی کفالت اس حدیث کی رُوسے مسلم حاکم کے ذمّے ہے کہ جن کا مورث اُن کے لیے کوئی وراثت چھوڑکرنہ مراہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2090   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6731  
6731. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں اہل ایمان کا خود ان کی جانوں سے زیادہ تعلق دار ہوں، چنانچہ جو شخص فوت ہو جائے اور اس پر قرض ہو اور اس کی ادائیگی کے لیے اس نے کچھ نہ چھوڑا ہو تو اس کا ادا کرنا ہمارے ذمے ہے اور جو شخص مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وراثوں کے لیے ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6731]
حدیث حاشیہ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت کے لئے بمنزلہ باپ کے تھے اس لئے آپ نے یہ ارشاد فرمایا اور اسی لئے آپ اپنے ذمہ لے لیتے اور ادا فرما دیتے آپ کا یہی طرز عمل رہا (صلی اللہ علیہ وسلم)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6731   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6731  
6731. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں اہل ایمان کا خود ان کی جانوں سے زیادہ تعلق دار ہوں، چنانچہ جو شخص فوت ہو جائے اور اس پر قرض ہو اور اس کی ادائیگی کے لیے اس نے کچھ نہ چھوڑا ہو تو اس کا ادا کرنا ہمارے ذمے ہے اور جو شخص مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وراثوں کے لیے ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6731]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو یہاں مختصر طور پر بیان کیا ہے۔
ایک دوسری روایت میں تفصیل ہے۔
اس کے الفاظ یہ ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی میت لائی جاتی اور اس کے ذمے قرض ہوتا تو آپ اس کے متعلق دریافت فرماتے:
کیا اس نے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ مال چھوڑا ہے؟ اگر بتایا جاتا کہ اس نے مال چھوڑا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھتے بصورت دیگر فرماتے:
تم خود اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو۔
جب اللہ تعالیٰ نے فتوحات کا دروازہ کھول دیا تو آپ فرماتے:
میں اہل ایمان کا خود ان سے زیادہ حق دار ہوں۔
ان میں سے اگر کوئی مقروض فوت ہو اور ادائیگی کے لیے کچھ نہ چھوڑا ہو تو ہم پر اس کی ادائیگی ہے اور جس نے مال چھوڑا ہے تو وہ اس کے ورثاء کے لیے ہے۔
(صحیح البخاري، الکفالة، حدیث: 2298)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میں دنیا و آخرت میں اہل ایمان سے زیادہ قربت رکھنے والا ہوں، اگر چاہو تو یہ پڑھ لو:
بلاشبہ نبی اہل ایمان کے لیے ان کی اپنی ذات سے بھی زیادہ خیرخواہ ہے، لہذا اگر کوئی مومن فوت ہو جائے اور اس کا مال ہو تو وہ اس کے ورثاء کے لیے ہے، وہ جو بھی ہوں اور اگر قرض اور بال بچے چھوڑ گیا ہے تو وہ میرے پاس آئیں میں ان کا ضامن ہوں۔
(صحیح البخاري، الاستقراض، حدیث: 2399) (2)
غریب، تنگدست میت کا قرض اتارنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے جو آپ اپنے مال خالص سے ادا کرتے تھے۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ آپ بیت المال سے دیتے تھے، ان کے ہاں یہ ذمہ داری اسلامی حکومت کی ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6731