اور زید بن ثابت نے کہا کہ جب کسی مرد یا عورت نے کوئی لڑکی چھوڑی ہو تو اس کا حصہ آدھا ہوتا ہے اور اگر دو لڑکیاں ہوں یا زیادہ ہوں تو انہیں دو تہائی حصہ ملے گا اور اگر ان کے ساتھ کوئی (ان کا بھائی) لڑکا بھی ہو تو پہلے وراثت کے شرکاء کو دیا جائے گا اور جو باقی بچے گا اس میں سے لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا جائے گا۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ ابن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میراث اس کے حق داروں تک پہنچا دو اور جو کچھ باقی بچے وہ سب سے زیادہ قریبی مرد عزیز کا حصہ ہے۔“
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2740
´عصبہ کی میراث کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مال کو اللہ کی کتاب (قرآن) کے مطابق ذوی الفروض (میراث کے حصہ داروں) میں تقسیم کرو، پھر جو ان کے حصوں سے بچ رہے وہ اس مرد کا ہو گا جو میت کا زیادہ قریبی ہو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2740]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اصحاب الفروض سے مراد وہ وارث ہیں جن کے حصے قرآن مجید اور حدیث شریف میں مقرر کردیے گئے ہیں۔ یہ بارہ افراد ہیں جن میں چار مرد ہیں اور آٹھ عورتیں ہیں۔ ان کی تفصیل حدیث: 2737 کے ذیل میں گزر چکی ہے۔
(2) مندرجہ بالا افراد میں سے بعض افراد ایک حالت میں اصحاب الفروض میں شامل ہوتے ہیں اور ایک حالت میں عصبہ بن جاتے ہیں، مثلاً: ایک بیٹی یا ایک سے زیادہ بیٹیاں اس وقت اصحاب الفروض میں شامل ہیں جب میت کا کوئی بیٹا موجود نہ ہو، اگر بیٹا موجود ہو تو بیٹی یا بیٹیاں عصبہ بن جاتی ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2740
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2898
´عصبہ کی میراث کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ذوی الفروض ۱؎ میں مال کتاب اللہ کے مطابق تقسیم کر دو اور جو ان کے حصوں سے بچ رہے وہ اس مرد کو ملے گا جو میت سے سب سے زیادہ قریب ہو ۲؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2898]
فوائد ومسائل: شریعت نے جن کے حصے مقرر کردیئے ہیں۔ انہیں اصحاب الفروض اور اہل الفرض کہتے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2898
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6732
6732. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”مقرر حصے ان کے حقداروں تک پہنچا دو اور جو باقی بچے وہ میت کے سب سے زیادہ قریبی مرد کے لیے ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6732]
حدیث حاشیہ: (1) مرنے والے کے ترکے سے حصہ پانے والوں کی دو قسمیں ہیں: ٭اصحاب الفرائض٭ عصبات۔ اصحاب الفرائض سے مراد وہ رشتے دار ہیں جن کا حصہ قرآن کریم میں طے شدہ ہے۔ مقررہ حصوں کی تعداد چھ ہے: نصف 1/2، اس کا نصف ربع1/4، اس کا نصف ثمن1/8۔ اسے گروپ کا نام دیا جاتا ہے۔ ثلثان2/3، اس کا نصف ثلث1/3، اس کا نصف1/6۔ اسے علم وراثت میں گروپ دوم کا نام دیا جاتا ہے۔ مقررہ حصہ لینے والوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ مزید معلومات کے لیے ہماری کتاب " اسلامی قانون وراثت" کا مطالعہ کریں۔ عصبات سے مراد وہ رشتے دار ہیں جن کا حصہ طے شدہ نہیں بلکہ اگر مقررہ حصہ لینے والا کوئی رشتہ دار نہ ہو تو پوری جائیداد کے مالک بن جاتے ہیں۔ اگر مقررہ حصہ لینے والے موجود ہوں تو ان کا حصہ دینے کے بعد باقی ماندہ جائیداد کے مالک عصبات ہوتے ہیں، مثلاً: بیٹا، پوتا اور بھائی وغیرہ عصبات ہیں۔ چار عصبات ایسے ہیں جو اپنی بہنوں کو بھی عصبہ بناتے ہیں: ٭بیٹا اپنی بہن، یعنی بیٹی کو۔ ٭پوتا اپنی بہن، یعنی پوتی ہو۔ ٭حقیقی بھائی اپنی حقیقی بہن کو۔ ٭پدری بھائی اپنی پدری بہن کو۔ ان کے علاوہ کوئی عصبہ اپنی بہن کو عصبہ نہیں بناتا، مثلاً: چچا اپنی بہن کو یا چچے کا بیٹا اپنی بہن کو عصبہ نہیں بنائے گا۔ اگر مرنے والے کا چچا اور پھوپھی زندہ ہے تو جائیداد کا حق دار صرف چچا ہوگا،پھوپھی محروم ہوگی،اسی طرح اگر بھتیجا اور بھتیجی ہے تو بھتیجا حق دار اور بھتیجی محروم ہوگی۔ (2) عصابت کی تین قسمیں ہیں: ٭ عصبہ بنفسہ،٭ عصبہ بالغیر،٭ عصبہ مع الغیر، تفصیلات آئندہ بیان کی جائیں گی، ان شاء اللہ۔ (3) واضح رہے کہ مادری بھائی نہ خود عصبہ بنتے ہیں اور نہ اپنی بہنوں ہی کو عصبہ بناتے ہیں۔ قرآن کریم میں مادر بہن بھائیوں کا طے شدہ حصہ بیان ہوا ہے۔ اگر ایک مادری بھائی یا مادری بہن ہے تو انھیں چھٹا حصہ ملے گا اور اگر زیادہ ہیں تو ایک تہائی میں برابر کے شریک ہوں گے۔ ان میں للذكر مثل حظ الانثيين والا ضابطہ جاری نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6732