صحيح البخاري
كِتَاب الْفَرَائِضِ -- کتاب: فرائض یعنی ترکہ کے حصوں کے بیان میں
9. بَابُ مِيرَاثِ الْجَدِّ مَعَ الأَبِ وَالإِخْوَةِ:
باب: باپ یا بھائیوں کی موجودگی میں دادا کی میراث کا بیان۔
حدیث نمبر: 6738
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَمَّا الَّذِي، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ خَلِيلًا، لَاتَّخَذْتُهُ وَلَكِنْ خُلَّةُ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ" أَوْ قَالَ خَيْرٌ، فَإِنَّهُ أَنْزَلَهُ أَبًا أَوْ قَالَ قَضَاهُ أَبًا.
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ اگر میں اس امت کے کسی آدمی کو خلیل بناتا تو ان کو (ابوبکر رضی اللہ عنہ کو) کو خلیل بناتا، لیکن اسلام کا تعلق ہی سب سے بہتر ہے تو اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دادا کو باپ کے درجہ میں رکھا ہے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6738  
6738. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے جو فرمایا ہے: اگر میں اس امت میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا لیکن اسلام کی دوستی افضل یا بہتر ہے ابو بکر ؓ نے دادے کو باپ کے قائم مقام قرار دیا ہے، یا انہوں نے فیصلہ دیا ہے کہ دادا باپ کی جگہ پر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6738]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے باپ اور بھائی کے ساتھ دادے کی وراثت کو بیان کیا ہے۔
ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ باپ کی موجودگی میں دادا محروم رہتا ہے اور اس امر پر امت کے علماء کا اجماع ہے۔
(فتح الباري: 24/12)
نیز باپ کی موجود گی میں ہر قسم کے بھائی ترکے سے محروم قرار پاتے ہیں۔
اب دادے کی موجودگی میں بھائیوں کو میت کی جائیداد سے حصہ ملے گا یا نہیں، اس کے متعلق علمائے امت میں اختلاف ہے۔
حضرت ابوبکر، حضرت ابن عباس، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم اور ائمہ اربعہ میں سے حضرت ابو حنیفہ کے نزدیک دادے کی موجودگی میں بھائی محروم رہتے ہیں کیونکہ دادا، باپ کے قائم مقام ہے، البتہ حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور ائمہ اربعہ میں سے امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ دادے کی موجودگی میں حقیقی اور پدری بھائی وارث ہوں گے لیکن ان کا طریقۂ تقسیم بہت پیچیدہ ہے۔
اسے علم میراث کی اصطلاح میں مقاسمة الجد کہا جاتا ہے، یعنی میت کی جائیداد کو دادے اور اس کے بہن بھائیوں میں تقسیم کرنے کا طریق کار۔
ہم اس کی وضاحت بیان کیے دیتے ہیں:
اگر دادے اور میت کے بہن بھائیوں کے ساتھ دیگر اصحاب الفروض بھی ہوں اور ان کا مقررہ حصہ انھیں دینے کے بعد کل ترکے کا 1/6 بچے تو وہ دادے کو دیا جائے گا، اس صورت میں بہن بھائی محروم ہوں گے، مثلاً:
میت کے وارث خاوند، ماں، دادا اور بہن بھائی ہیں تو کل ترکے کے چھے حصے ہوں گے:
خاوند کا حصہ 1/2، یعنی کل جائیداد کے تین حصے، ماں کا حصہ1/3، یعنی کل جائیداد کے دوحصے، باقی ایک حصہ بچا جو کل ترکے کا چھٹا حصہ ہے وہ دادے کو مل جائے گا اور بہن بھائی محروم ہوں گے۔
اگر اصحاب الفروض کو ان کے مقررہ حصے دینے کے بعد باقی 1/6 سے کم ہو تو دادے کا چھٹا حصہ بطریق عول (ابتدائی تقسیم کے بعد مزید ردوبدل کے ذریعے سے)
پورا کیا جائے گا، بہن بھائی محروم رہیں گے، مثلاً:
میت کے وارث خاوند، بیٹی، ماں، دادا اور دیگر بہن بھائی ہیں تو کل جائیداد کے بارہ حصے ہوں گے:
خاوند کا 1/4، یعنی تین حصے، لڑکی 1/2، یعنی چھے حصے، ماں کا 1/6، یعنی دو حصے دادے کے لیے صرف ایک حصہ بچا جو کل ترکے کا بارھواں حصہ ہے، اس لیے یہاں عول کے اصول پر بارہ کے بجائے تیرہ حصے کرکے دادے کو ان میں سے دو حصے دیے جائیں گے۔
اگر دوسرے اصحاب الفروض کو دینے کے بعد کل ترکے کے چھٹے حصے سے زیادہ بچے تو پھر مقاسمہ ہوگا، یعنی دادے کو ایک بھائی سمجھ کر دادے اور دوسرے بہن بھائیوں کے درمیان ترکہ تقسیم ہوگا۔
(2)
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا موقف ہے کہ دادے کہ ساتھ بہن بھائیوں کی تین صورتیں ہیں:
٭ اگر صرف دادا اور بہن بھائی وارث ہوں تو مقاسمہ یا تمام ترکے کا تہائی، ان دو صورتوں میں جو صورت دادے کے لیے بہتر ہوگی اسے اختیار کیا جائے گا، مثلاً:
دادا اور ایک بھائی ہو تو اس صورت میں دادے کے لیے مقاسمہ بہتر ہے کیونکہ اس طرح آدھی جائیداد کا حق دار ہوگا اور اگر وارث دادا اور تین بھائی ہیں تو پھر دادے کے لیے کل ترکے کا ایک تہائی بہتر ہے، اس لیے کہ مقاسمہ کی صورت میں اسے 1/4 ملے گا جو 1/3 سے کم ہے۔
٭اگر دادے اور بہن بھائیوں کے ساتھ دیگر اصحاب الفروض بھی ہوں اور اصحاب الفروض کو ان کا حصہ دینے کے بعد کچھ بچے تو اگر چھٹے حصے سے زیادہ باقی بچے تو ایسی حالت میں دادے کے لیے حسب ذیل تین صورتیں اختیار کی جاتی ہیں، ان میں بہتر صورت کو دیکھا جائے:
٭مقاسمہ، ٭ باقی ترکے کا تہائی۔
٭کل ترکے کا چھٹا حصہ۔
مثال:
میت کے وارث خاوند، دادا اور بھائی ہیں تو اس صورت میں مقاسمہ بہتر ہے کیونکہ اس طرح دادے کو کل ترکے کا 1/4 ملے گا اور اگر میت کے وارث ماں، دادا پانچ بہنیں ہوں تو اس صورت میں باقی ترکے کی تہائی بہتر ہے اور اگر وارث خاوند، ماں، دادا اور دو بھائی ہیں تو اس صورت میں دادے کے لیے کل ترکے کا چھٹا حصہ بہتر ہے۔
٭اگر دادے اور بہن بھائیوں کے ساتھ دیگر اصحاب الفروض بھی ہیں اور اصحاب الفروض کو دینے کے بعد باقی چھٹا حصہ بچتا ہوتو اس صورت میں دادے کو چھٹا حصہ دیا جائے گا اور بہن بھائی سب محروم ہوں گے، مثلاً:
میت کے وارث خاوند، دادا اور دیگر بھائی ہیں تو کل ترکے کے چھے حصے ہوں گے:
خاوند کا نصف تین حصے، ماں کا تہائی، یعنی دو حصے، باقی ایک حصہ بچا جو کل ترکے کا1/(6)
ہے وہ دادے کو ملے گا اور بہن بھائی محروم ہوں گے۔
اگر اصحاب الفروض کو دینے کے بعد چھٹے حصے سے کم بچے تو بہن بھائی محروم اور دادے کا چھٹا حصہ بطریق عول پورا کیا جائے گا جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔
(3)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں جو احادیث پیش کی ہیں ان سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ دادے کی موجودگی میں حقیقی اور پدری بہن بھائی محروم ہوتے ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6738