صحيح البخاري
كِتَاب الْفَرَائِضِ -- کتاب: فرائض یعنی ترکہ کے حصوں کے بیان میں
15. بَابُ ابْنَيْ عَمٍّ أَحَدُهُمَا أَخٌ لِلأُمِّ وَالآخَرُ زَوْجٌ:
باب: اگر کوئی عورت مر جائے اور اپنے دو چچا زاد بھائی چھوڑ جائے ایک تو ان میں سے اس کا اخیائی بھائی ہو، دوسرا اس کا خاوند ہو۔
حدیث نمبر: 6746
حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ بِسْطَامٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ رَوْحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا تَرَكَتِ الْفَرَائِضُ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ".
ہم سے امیہ بن بسطام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے روح نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن طاؤس نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میراث اس کے وارثوں تک پہنچا دو اور جو کچھ اس میں سے بچ رہے وہ قریبی عزیز مرد کا حق ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2740  
´عصبہ کی میراث کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مال کو اللہ کی کتاب (قرآن) کے مطابق ذوی الفروض (میراث کے حصہ داروں) میں تقسیم کرو، پھر جو ان کے حصوں سے بچ رہے وہ اس مرد کا ہو گا جو میت کا زیادہ قریبی ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2740]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اصحاب الفروض سے مراد وہ وارث ہیں جن کے حصے قرآن مجید اور حدیث شریف میں مقرر کردیے گئے ہیں۔
یہ بارہ افراد ہیں جن میں چار مرد ہیں اور آٹھ عورتیں ہیں۔
ان کی تفصیل حدیث: 2737 کے ذیل میں گزر چکی ہے۔

(2)
  مندرجہ بالا افراد میں سے بعض افراد ایک حالت میں اصحاب الفروض میں شامل ہوتے ہیں اور ایک حالت میں عصبہ بن جاتے ہیں، مثلاً:
ایک بیٹی یا ایک سے زیادہ بیٹیاں اس وقت اصحاب الفروض میں شامل ہیں جب میت کا کوئی بیٹا موجود نہ ہو، اگر بیٹا موجود ہو تو بیٹی یا بیٹیاں عصبہ بن جاتی ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2740   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2898  
´عصبہ کی میراث کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذوی الفروض ۱؎ میں مال کتاب اللہ کے مطابق تقسیم کر دو اور جو ان کے حصوں سے بچ رہے وہ اس مرد کو ملے گا جو میت سے سب سے زیادہ قریب ہو ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2898]
فوائد ومسائل:
شریعت نے جن کے حصے مقرر کردیئے ہیں۔
انہیں اصحاب الفروض اور اہل الفرض کہتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2898   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6746  
6746. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: مقررہ حصے ان کے حق داروں کو پہنچا دو اور جو کچھ ان سے باقی رہے وہ قریبی عزیز مرد کا حصہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6746]
حدیث حاشیہ:
(1)
وہ عصبہ جو جہت کے اعتبار سے برابر ہوں وہ باقی ترکے میں برابر کے شریک ہوں گے جیسا کہ مذکورہ بالا صورت میں خاوند اور مادری بھائی کو دینے کے بعد باقی ایک تہائی میں پھر دونوں برابر کے شریک ہیں لیکن کچھ حضرات کہتے ہیں کہ باقی مادری بھائی کو دیا جائے کیونکہ اس میں دو قرابتیں ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی تردید کے لیے یہ احادیث پیش کی ہیں کہ عصبہ اگر جہت میں برابر ہیں تو باقی مال برابر ہی تقسیم کریں گے۔
(فتح الباري: 35/12) (2)
دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دو قرابتیں رکھنے والے وارث کا حق بتایا ہے کہ اسے دونوں قرابتوں کے لحاظ سے حصہ دیا جائے گا یا اسے ایک قرابت کے اعتبار سے حق دار ٹھہرایا جائے گا؟ علم فرائض میں دو قرابتیں رکھنے والے کی تین قسمیں حسب ذیل ہیں:
٭دونوں قرابتیں مقررہ حصے کے اعتبار سے ہوں گی، مثلاً:
ایک آدمی اپنی پھوپھی زاد سے شادی کرتا ہے اور ان سے ایک لڑکا پیدا ہوتا ہے جب وہ لڑکا فوت ہو جائے تو اس کی دادی میں دو قرابتیں جمع ہیں، باپ کی طرف سے دادی اور ماں کی طرف سے نانی ہے۔
اس صورت میں صرف ایک قرابت کا لحاظ ہوگا۔
٭دونوں قرابتیں عصبہ ہونے کی حیثیت سے ہوں، مثلاً:
ایک عورت اپنے چچا زاد سے شادی کرتی ہے اور ایک بیٹا چھوڑ کر فوت ہو جاتی ہے تو اس کا بیٹا دو قرابتوں کا حامل ہے:
ایک تو بیٹا ہونے کی حیثیت سے عصبہ ہے اور ایک وہ چچا زاد کا بیٹا بھی ہے، اس صورت میں زیادہ قوت والی جہت کا اعتبار ہوگا دوسری جہت کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا۔
٭ایک قرابت مقررہ حصے کے اعتبار سے اور دوسری عصبہ ہونے کے لحاظ سے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان میں ہے:
تو اس صورت میں دونوں جہتوں کا اعتبار ہوگا کیونکہ دونوں ہی وراثت کی حق دار بناتی ہیں، اگر کوئی رکاوٹ کھڑی ہو جائے تو الگ بات ہے۔
(3)
واضح رہے کہ مسلمانوں کے ہاں جو نکاح ہوتے ہیں ان میں درج ذیل صورت میں دو قرابتیں ہو سکتی ہیں:
٭میت کا بیٹا جبکہ وہ میت کے چچا کے بیٹے کا بیٹا بھی ہو۔
٭مادری بھائی جبکہ وہ چچا زاد بھی ہو۔
٭خاوند جبکہ وہ چچا کا بیٹا بھی ہو۔
٭بیوی جبکہ وہ میت کے چچا کی بیٹی ہو۔
شارحین میں سے کسی نے بھی امام بخاری رحمہ اللہ کے اس مقصود کو بیان نہیں فرمایا۔
هذا مما فتح الله علي بمنه و كرمه و فضله وهو المستعان و عليه التكلان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6746