مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ -- 0
34. مسنَد اَنَسِ بنِ مَالِك رَضِیَ اللَّه عَنه
0
حدیث نمبر: 12505
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أُتِيتُ بِالْبُرَاقِ، وَهُوَ دَابَّةٌ أَبْيَضُ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُونَ الْبَغْلِ، يَضَعُ حَافِرَهُ عِنْدَ مُنْتَهَى طَرْفِهِ، فَرَكِبْتُهُ فَسَارَ بِي حَتَّى أَتَيْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ، فَرَبَطْتُ الدَّابَّةَ بِالْحَلْقَةِ الَّتِي يَرْبِطُ فِيهَا الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ دَخَلْتُ، فَصَلَّيْتُ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجْتُ، فَجَاءَنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ، وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ، فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ، قَالَ جِبْرِيلُ: أَصَبْتَ الْفِطْرَةَ، قَالَ: ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ، فَقِيلَ: وَمَنْ أَنْتَ؟، قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟، قَالَ: مُحَمَّدٌ، فَقِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟، قَالَ: قَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِآدَمَ، فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ، فَقِيلَ: وَمَنْ أَنْتَ؟، قَالَ: جِبْرِيلُ، فَقِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟، قَالَ: مُحَمَّدٌ، فَقِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟، قَالَ: قَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قَالَ: فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِابْنَيْ الْخَالَةِ يَحْيَى، وَعِيسَى، فَرَحَّبَا وَدَعَوَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ، فَقِيلَ: مَنْ أَنْتَ؟، قَالَ: جِبْرِيلُ، فَقِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟، قَالَ: مُحَمَّدٌ، فَقِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟، قَالَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِيُوسُفَ، فَإِذَا هُوَ قَدْ أُعْطِيَ شَطْرَ الْحُسْنِ، فَرَحَّبَ، وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ الرَّابِعَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ، فَقِيلَ: مَنْ أَنْتَ؟، قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟، قَالَ: مُحَمَّدٌ، فَقِيلَ: قَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟، قَالَ: قَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، فَفُتِحَ الْبَابُ، فَإِذَا أَنَا بِإِدْرِيسَ، فَرَحَّبَ بِي، وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا سورة مريم آية 57، ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ الْخَامِسَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ، فَقِيلَ: مَنْ أَنْتَ؟، قَالَ: جِبْرِيلُ، فَقِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟، قَالَ: مُحَمَّدٌ، فَقِيلَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟، قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ، فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِهَارُونَ، فَرَحَّبَ، وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ، فَقِيلَ: مَنْ أَنْتَ؟، قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟، قَالَ: مُحَمَّدٌ، فَقِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟، قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ، فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى، فَرَحَّبَ، وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ، فَقِيلَ: مَنْ أَنْتَ؟، قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟، قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟، قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ، فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِإِبْرَاهِيمَ، وَإِذَا هُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَى الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ، وَإِذَا هُوَ يَدْخُلُهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، لَا يَعُودُونَ إِلَيْهِ، ثُمَّ ذَهَبَ بِي إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى، وَإِذَا وَرَقُهَا كَآذَانِ الْفِيَلَةِ، وَإِذَا ثَمَرُهَا كَالْقِلَالِ، فَلَمَّا غَشِيَهَا مِنْ أَمْرِ اللَّهِ مَا غَشِيَهَا، تَغَيَّرَتْ، فَمَا أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَصِفَهَا مِنْ حُسْنِهَا، قَالَ: فَأَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيَّ مَا أَوْحَى، وَفَرَضَ عَلَيَّ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ خَمْسِينَ صَلَاةً، فَنَزَلْتُ حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ: مَا فَرَضَ رَبُّكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟، قَالَ: قُلْتُ: خَمْسِينَ صَلَاةً فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، قَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ، وَإِنِّي قَدْ بَلَوْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَخَبَرْتُهُمْ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، فَقُلْتُ: أَيْ رَبِّ، خَفِّفْ عَنْ أُمَّتِي، فَحَطَّ عَنِّي خَمْسًا، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ: مَا فَعَلْتَ؟، قُلْتُ: حَطَّ عَنِّي خَمْسًا، قَالَ: إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَاكَ، فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ، فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ، قَالَ: فَلَمْ أَزَلْ أَرْجِعُ بَيْنَ رَبِّي وَبَيْنَ مُوسَى، وَيَحُطُّ عَنِّي خَمْسًا خَمْسًا، حَتَّى قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، هِيَ خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، بِكُلِّ صَلَاةٍ عَشْرٌ، فَتِلْكَ خَمْسُونَ صَلَاةً، وَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كُتِبَتْ حَسَنَةً، فَإِنْ عَمِلَهَا كُتِبَتْ عَشْرًا، وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا لَمْ تُكْتَبْ شَيْئًا، فَإِنْ عَمِلَهَا كُتِبَتْ سَيِّئَةً وَاحِدَةً، فَنَزَلْتُ حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى مُوسَى، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَاكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ رَجَعْتُ إِلَى رَبِّي حَتَّى لَقَدْ اسْتَحْيَيْتُ".
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شب معراج میرے پاس براق لایا گیا جو گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا جانور تھا، وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں تک اس کی نگاہ پڑتی تھی، میں اس پر سوار ہوا، پھر روانہ ہو کر بیت المقدس پہنچا اور اس حلقے سے اپنی سواری باندھی جس سے دیگر انبیاء (علیہم السلام) باندھتے چلے آئے تھے، پھر وہاں داخل ہو کردو رکعتیں پڑھیں، پھر وہاں سے نکلا تو جبرائیل علیہ السلام میرے پاس ایک برتن شراب کا اور ایک دودھ کا برتن لائے، میں نے دودھ والا برتن منتخب کرلیا، حضرت جبرائیل علیہ السلام کہنے لگے کہ آپ نے فطرت کو پالیا۔ پھر آسمان دنیا کی طرف لے کر چلے اور اس کے دروازہ کو کھٹکھٹایا، اہل آسمان نے کہا کہ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا جبریل، انہوں نے کہا کہ تمہارے ہمراہ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، انہوں نے کہا کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں، انہوں نے دروازہ کھول دیا اور پہلے ہی آسمان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات کی، انہوں نے خوش آمدید کہا اور دعا دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جبرائیل علیہ السلام لے کر دوسرے آسمان پر چڑھے اس کے دروازے پر بھی فرشتوں نے پہلے آسمان کی طرح سوال کیا کہ کون ہے؟ انہوں نے کہا جبریل، انہوں نے کہا کہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ حضرت محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہوں نے کہا وہ بلائے گئے ہیں؟ انہوں نے دروازہ کھول دیا، وہاں حضرت یحیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعا دی۔ پھر تیسرے آسمان پر تشریف لے گئے اور وہاں بھی یہی گفتگو ہوئی جو دوسرے میں ہوئی تھی، پھر چوتھے پر چڑھے اور وہاں بھی یہی گفتگو ہوئی، پھر پانچویں آسمان پر پہنچے وہاں بھی یہی گفتگو ہوئی، پھر چھٹے آسمان پر چڑھے وہاں کے فرشتوں نے بھی یہی گفتگو کی، پھر ساتویں آسمان پر پہنچے وہاں کے فرشتوں نے بھی یہی کیا۔ تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی جنہیں آدھا حسن دیا گیا تھا، انہوں نے بھی مجھے خوش آمدید کہا اور دعا دی، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی جنہیں اللہ نے بلند جگہ اٹھالیا تھا، انہوں نے بھی مجھے خوش آمدید کہا اور دعا دی، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بھی مجھے خوش آمدید کہا اور دعا دی، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی انہوں نے بھی مجھے خوش آمدید کہا اور دعا دی، ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بھی مجھے خوش آمدید کہا اور دعا دی، وہ بیت المعمور سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے جہاں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور دوبارہ ان کی باری نہیں آتی۔ پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ لے جایا گیا جس کے پتے ہاتھی کے کان کے برابر اور پھل ہجر کے مٹکے برابر تھے، جب اللہ کے حکم سے اس چیز نے اسے ڈھانپ لیا جس نے ڈھانپا تو وہ بدل گیا اور اب کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے کہ اس کا حسن بیان کرسکے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جو وحی کرنا تھی وہ وحی کی، منجملہ اس کے یہ بھی وحی کی کہ تمہاری امت پر پچاس نمازیں روزوشب میں فرض ہیں۔ پھر رسول انور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نیچے تشریف لائے یہاں تک کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا اور کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تمہارے پروردگار نے تم سے کیا عہد لیا ہے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر روز و شب میں پچاس نمازیں فرض کی ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تمہاری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی اپنے رب کے پاس واپس جا کر اس سے تخفیف کی درخواست کیجئے، کیونکہ میں بنی اسرائیل کو آزما چکا ہوں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جناب باری میں گئے اور اسی اپنی جگہ میں پہنچ کر عرض کیا کہ اے پروردگار! ہم پر تخفیف فرما، اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں معاف فرما دیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے، انہوں نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پروردگار کے حضور بھیجا۔ غرض کہ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام رسول انور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! روزانہ دن رات میں پانچ نمازیں ہیں اور ہر نماز پر دس کا ثواب ہے لہٰذا یہ پچاس نمازیں ہوگئیں، جو شخص نیکی کا ارادہ کرے لیکن اس پر عمل نہ کرسکے اس کے لئے ایک نیکی لکھی جائے گی او ببب