صحيح البخاري
كِتَابُ بَدْءِ الْوَحْيِ -- کتاب: وحی کے بیان میں
--. ( بَابٌ: )
باب: (ابوسفیان اور ہرقل کا مقالمہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرقل کو خط مبارک)
حدیث نمبر: 7
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ أَخْبَرَهُ،" أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي رَكْبٍ مِنْ قُرَيْشٍ، وَكَانُوا تِجَارًا بِالشَّأْمِ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَادَّ فِيهَا أَبَا سُفْيَانَ وَكُفَّارَ قُرَيْشٍ، فَأَتَوْهُ وَهُمْ بِإِيلِيَاءَ، فَدَعَاهُمْ فِي مَجْلِسِهِ وَحَوْلَهُ عُظَمَاءُ الرُّومِ، ثُمَّ دَعَاهُمْ وَدَعَا بِتَرْجُمَانِهِ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا بِهَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟ فَقَالَ: أَبُو سُفْيَانَ، فَقُلْتُ: أَنَا أَقْرَبُهُمْ نَسَبًا، فَقَالَ: أَدْنُوهُ مِنِّي وَقَرِّبُوا أَصْحَابَهُ فَاجْعَلُوهُمْ عِنْدَ ظَهْرِهِ، ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنْ هَذَا الرَّجُلِ، فَإِنْ كَذَبَنِي فَكَذِّبُوهُ، فَوَاللَّهِ لَوْلَا الْحَيَاءُ مِنْ أَنْ يَأْثِرُوا عَلَيَّ كَذِبًا لَكَذَبْتُ عَنْهُ، ثُمَّ كَانَ أَوَّلَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ، أَنْ قَالَ: كَيْفَ نَسَبُهُ فِيكُمْ؟ قُلْتُ: هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ، قَالَ: فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ مِنْكُمْ أَحَدٌ قَطُّ قَبْلَهُ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَأَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟ فَقُلْتُ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ، قَالَ: أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ؟ قُلْتُ: بَلْ يَزِيدُونَ، قَالَ: فَهَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَهَلْ يَغْدِرُ؟ قُلْتُ: لَا، وَنَحْنُ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ لَا نَدْرِي مَا هُوَ فَاعِلٌ فِيهَا، قَالَ: وَلَمْ تُمْكِنِّي كَلِمَةٌ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرُ هَذِهِ الْكَلِمَةِ، قَالَ: فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ؟ قُلْتُ: الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالٌ يَنَالُ مِنَّا وَنَنَالُ مِنْهُ، قَالَ: مَاذَا يَأْمُرُكُمْ؟ قُلْتُ: يَقُولُ اعْبُدُوا اللَّهَ وَحْدَهُ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَاتْرُكُوا مَا يَقُولُ آبَاؤُكُمْ، وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ وَالصِّلَةِ، فَقَالَ لِلتَّرْجُمَانِ: قُلْ لَهُ سَأَلْتُكَ عَنْ نَسَبِهِ؟ فَذَكَرْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو نَسَبٍ، فَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا، وَسَأَلْتُكَ، هَلْ قَالَ أَحَدٌ مِنْكُمْ هَذَا الْقَوْلَ؟ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا، فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ أَحَدٌ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ؟ لَقُلْتُ: رَجُلٌ يَأْتَسِي بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ، وَسَأَلْتُكَ، هَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ؟ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا، قُلْتُ: فَلَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ؟ قُلْتُ: رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ أَبِيهِ، وَسَأَلْتُكَ، هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا، فَقَدْ أَعْرِفُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَذَرَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ وَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ، وَسَأَلْتُكَ، أَشْرَافُ النَّاسِ اتَّبَعُوهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟ فَذَكَرْتَ أَنَّ ضُعَفَاءَهُمُ اتَّبَعُوهُ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، وَسَأَلْتُكَ، أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ؟ فَذَكَرْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ، وَكَذَلِكَ أَمْرُ الْإِيمَانِ حَتَّى يَتِمَّ، وَسَأَلْتُكَ، أَيَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ؟ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا، وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حِينَ تُخَالِطُ بَشَاشَتُهُ الْقُلُوبَ، وَسَأَلْتُكَ، هَلْ يَغْدِرُ؟ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لَا تَغْدِرُ، وَسَأَلْتُكَ، بِمَا يَأْمُرُكُمْ؟ فَذَكَرْتَ أَنَّهُ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَيَنْهَاكُمْ عَنْ عِبَادَةِ الْأَوْثَانِ، وَيَأْمُرُكُمْ بِالصَّلَاةِ، وَالصِّدْقِ، وَالْعَفَافِ، فَإِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَسَيَمْلِكُ مَوْضِعَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ، وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ لَمْ أَكُنْ أَظُنُّ أَنَّهُ مِنْكُمْ، فَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَتَجَشَّمْتُ لِقَاءَهُ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمِهِ، ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي بَعَثَ بِه دِحْيَةُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى فَدَفَعَهُ إِلَى هِرَقْلَ فَقَرَأَهُ، فَإِذَا فِيهِ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ، سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى، أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ، وَيَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ، أَنْ لَا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا، وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ، فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا: اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَلَمَّا قَالَ مَا قَالَ وَفَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ، كَثُرَ عِنْدَهُ الصَّخَبُ وَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَأُخْرِجْنَا، فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ أُخْرِجْنَا: لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ إِنَّهُ يَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ، فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ، وَكَانَ ابْنُ النَّاظُورِ صَاحِبُ إِيلِيَاءَ وَهِرَقْلَ سُقُفًّا عَلَى نَصَارَى الشَّأْمِ، يُحَدِّثُ أَنَّ هِرَقْلَ حِينَ قَدِمَ إِيلِيَاءَ أَصْبَحَ يَوْمًا خَبِيثَ النَّفْسِ، فَقَالَ بَعْضُ بَطَارِقَتِهِ: قَدِ اسْتَنْكَرْنَا هَيْئَتَكَ، قَالَ ابْنُ النَّاظُورِ: وَكَانَ هِرَقْلُ حَزَّاءً يَنْظُرُ فِي النُّجُومِ، فَقَالَ لَهُمْ حِينَ سَأَلُوهُ: إِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ حِينَ نَظَرْتُ فِي النُّجُومِ مَلِكَ الْخِتَانِ قَدْ ظَهَرَ، فَمَنْ يَخْتَتِنُ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ؟ قَالُوا: لَيْسَ يَخْتَتِنُ إِلَّا الْيَهُودُ، فَلَا يُهِمَّنَّكَ شَأْنُهُمْ وَاكْتُبْ إِلَى مَدَايِنِ مُلْكِكَ، فَيَقْتُلُوا: مَنْ فِيهِمْ مِنْ الْيَهُودِ؟ فَبَيْنَمَا هُمْ عَلَى أَمْرِهِمْ، أُتِيَ هِرَقْلُ بِرَجُلٍ أَرْسَلَ بِهِ مَلِكُ غَسَّانَ يُخْبِرُ عَنْ خَبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا اسْتَخْبَرَهُ هِرَقْلُ، قَالَ: اذْهَبُوا فَانْظُرُوا أَمُخْتَتِنٌ هُوَ أَمْ لَا؟ فَنَظَرُوا إِلَيْهِ فَحَدَّثُوهُ أَنَّهُ مُخْتَتِنٌ، وَسَأَلَهُ عَنْ الْعَرَبِ؟ فَقَالَ: هُمْ يَخْتَتِنُونَ، فَقَالَ هِرَقْلُ: هَذَا مَلِكُ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَدْ ظَهَرَ، ثُمَّ كَتَبَ هِرَقْلُ إِلَى صَاحِبٍ لَهُ بِرُومِيَةَ وَكَانَ نَظِيرَهُ فِي الْعِلْمِ، وَسَارَ هِرَقْلُ إِلَى حِمْصَ، فَلَمْ يَرِمْ حِمْصَ حَتَّى أَتَاهُ كِتَابٌ مِنْ صَاحِبِهِ يُوَافِقُ رَأْيَ هِرَقْلَ عَلَى خُرُوجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَّهُ نَبِيٌّ، فَأَذِنَ هِرَقْلُ لِعُظَمَاءِ الرُّومِ فِي دَسْكَرَةٍ لَهُ بِحِمْصَ، ثُمَّ أَمَرَ بِأَبْوَابِهَا فَغُلِّقَتْ، ثُمَّ اطَّلَعَ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الرُّومِ، هَلْ لَكُمْ فِي الْفَلَاحِ وَالرُّشْدِ، وَأَنْ يَثْبُتَ مُلْكُكُمْ فَتُبَايِعُوا هَذَا النَّبِيَّ؟ فَحَاصُوا حَيْصَةَ حُمُرِ الْوَحْشِ إِلَى الْأَبْوَابِ فَوَجَدُوهَا قَدْ غُلِّقَتْ، فَلَمَّا رَأَى هِرَقْلُ نَفْرَتَهُمْ وَأَيِسَ مِنَ الْإِيمَانِ، قَالَ: رُدُّوهُمْ عَلَيَّ، وَقَالَ: إِنِّي قُلْتُ مَقَالَتِي آنِفًا أَخْتَبِرُ بِهَا شِدَّتَكُمْ عَلَى دِينِكُمْ، فَقَدْ رَأَيْتُ، فَسَجَدُوا لَهُ وَرَضُوا عَنْهُ فَكَانَ ذَلِكَ آخِرَ شَأْنِ هِرَقْلَ"، رَوَاهُ صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ، وَيُونُسُ، وَمَعْمَرٌ، عَن الزُّهْرِيِّ.
ہم کو ابوالیمان حکم بن نافع نے حدیث بیان کی، انہیں اس حدیث کی شعیب نے خبر دی۔ انہوں نے زہری سے یہ حدیث سنی۔ انہیں عبیداللہ ابن عبداللہ ابن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس سے ابوسفیان بن حرب نے یہ واقعہ بیان کیا کہ ہرقل (شاہ روم) نے ان کے پاس قریش کے قافلے میں ایک آدمی بلانے کو بھیجا اور اس وقت یہ لوگ تجارت کے لیے ملک شام گئے ہوئے تھے اور یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اور ابوسفیان سے ایک وقتی عہد کیا ہوا تھا۔ جب ابوسفیان اور دوسرے لوگ ہرقل کے پاس ایلیاء پہنچے جہاں ہرقل نے دربار طلب کیا تھا۔ اس کے گرد روم کے بڑے بڑے لوگ (علماء وزراء امراء) بیٹھے ہوئے تھے۔ ہرقل نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلوایا۔ پھر ان سے پوچھا کہ تم میں سے کون شخص مدعی رسالت کا زیادہ قریبی عزیز ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں کہ میں بول اٹھا کہ میں اس کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں۔ (یہ سن کر) ہرقل نے حکم دیا کہ اس کو (ابوسفیان کو) میرے قریب لا کر بٹھاؤ اور اس کے ساتھیوں کو اس کی پیٹھ کے پیچھے بٹھا دو۔ پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص کے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے) حالات پوچھتا ہوں۔ اگر یہ مجھ سے کسی بات میں جھوٹ بول دے تو تم اس کا جھوٹ ظاہر کر دینا، (ابوسفیان کا قول ہے کہ) اللہ کی قسم! اگر مجھے یہ غیرت نہ آتی کہ یہ لوگ مجھ کو جھٹلائیں گے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ضرور غلط گوئی سے کام لیتا۔ خیر پہلی بات جو ہرقل نے مجھ سے پوچھی وہ یہ کہ اس شخص کا خاندان تم لوگوں میں کیسا ہے؟ میں نے کہا وہ تو بڑے اونچے عالی نسب والے ہیں۔ کہنے لگا اس سے پہلے بھی کسی نے تم لوگوں میں ایسی بات کہی تھی؟ میں نے کہا نہیں کہنے لگا، اچھا اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ ہوا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ پھر اس نے کہا، بڑے لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے یا کمزوروں نے؟ میں نے کہا نہیں کمزوروں نے۔ پھر کہنے لگا، اس کے تابعدار روز بڑھتے جاتے ہیں یا کوئی ساتھی پھر بھی جاتا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ کہنے لگا کہ کیا اپنے اس دعوائے (نبوت) سے پہلے کبھی (کسی بھی موقع پر) اس نے جھوٹ بولا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ اور اب ہماری اس سے (صلح کی) ایک مقررہ مدت ٹھہری ہوئی ہے۔ معلوم نہیں وہ اس میں کیا کرنے والا ہے۔ (ابوسفیان کہتے ہیں) میں اس بات کے سوا اور کوئی (جھوٹ) اس گفتگو میں شامل نہ کر سکا۔ ہرقل نے کہا کیا تمہاری اس سے کبھی لڑائی بھی ہوتی ہے؟ ہم نے کہا کہ ہاں۔ بولا پھر تمہاری اور اس کی جنگ کا کیا حال ہوتا ہے؟ میں نے کہا، لڑائی ڈول کی طرح ہے، کبھی وہ ہم سے (میدان جنگ) جیت لیتے ہیں اور کبھی ہم ان سے جیت لیتے ہیں۔ ہرقل نے پوچھا۔ وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتا ہے؟ میں نے کہا وہ کہتا ہے کہ صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کا کسی کو شریک نہ بناؤ اور اپنے باپ دادا کی (شرک کی) باتیں چھوڑ دو اور ہمیں نماز پڑھنے، سچ بولنے، پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ (یہ سب سن کر) پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ابوسفیان سے کہہ دے کہ میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا تو تم نے کہا کہ وہ ہم میں عالی نسب ہے اور پیغمبر اپنی قوم میں عالی نسب ہی بھیجے جایا کرتے ہیں۔ میں نے تم سے پوچھا کہ (دعویٰ نبوت کی) یہ بات تمہارے اندر اس سے پہلے کسی اور نے بھی کہی تھی، تو تم نے جواب دیا کہ نہیں، تب میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ اگر یہ بات اس سے پہلے کسی نے کہی ہوتی تو میں سمجھتا کہ اس شخص نے بھی اسی بات کی تقلید کی ہے جو پہلے کہی جا چکی ہے۔ میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ بھی گزرا ہے، تم نے کہا کہ نہیں۔ تو میں نے (دل میں) کہا کہ ان کے بزرگوں میں سے کوئی بادشاہ ہوا ہو گا تو کہہ دوں گا کہ وہ شخص (اس بہانہ) اپنے آباء و اجداد کی بادشاہت اور ان کا ملک (دوبارہ) حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس بات کے کہنے (یعنی پیغمبری کا دعویٰ کرنے) سے پہلے تم نے کبھی اس کو دروغ گوئی کا الزام لگایا ہے؟ تم نے کہا کہ نہیں۔ تو میں نے سمجھ لیا کہ جو شخص آدمیوں کے ساتھ دروغ گوئی سے بچے وہ اللہ کے بارے میں کیسے جھوٹی بات کہہ سکتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ بڑے لوگ اس کے پیرو ہوتے ہیں یا کمزور آدمی۔ تم نے کہا کمزوروں نے اس کی اتباع کی ہے، تو (دراصل) یہی لوگ پیغمبروں کے متبعین ہوتے ہیں۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے ساتھی بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں۔ تم نے کہا کہ وہ بڑھ رہے ہیں اور ایمان کی کیفیت یہی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ کامل ہو جاتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا کوئی شخص اس کے دین سے ناخوش ہو کر مرتد بھی ہو جاتا ہے تم نے کہا نہیں، تو ایمان کی خاصیت بھی یہی ہے جن کے دلوں میں اس کی مسرت رچ بس جائے وہ اس سے لوٹا نہیں کرتے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا وہ کبھی عہد شکنی کرتے ہیں۔ تم نے کہا نہیں، پیغمبروں کا یہی حال ہوتا ہے، وہ عہد کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ اور میں نے تم سے کہا کہ وہ تم سے کس چیز کے لیے کہتے ہیں۔ تم نے کہا کہ وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تمہیں بتوں کی پرستش سے روکتے ہیں۔ سچ بولنے اور پرہیزگاری کا حکم دیتے ہیں۔ لہٰذا اگر یہ باتیں جو تم کہہ رہے ہو سچ ہیں تو عنقریب وہ اس جگہ کا مالک ہو جائے گا کہ جہاں میرے یہ دونوں پاؤں ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ (پیغمبر) آنے والا ہے۔ مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ تمہارے اندر ہو گا۔ اگر میں جانتا کہ اس تک پہنچ سکوں گا تو اس سے ملنے کے لیے ہر تکلیف گوارا کرتا۔ اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا۔ ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ خط منگایا جو آپ نے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ حاکم بصریٰ کے پاس بھیجا تھا اور اس نے وہ ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا۔ پھر اس کو پڑھا تو اس میں (لکھا تھا):

اللہ کے نام کے ساتھ جو نہایت مہربان اور رحم والا ہے۔
اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ خط ہے شاہ روم کے لیے۔ اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے اس کے بعد میں آپ کے سامنے دعوت اسلام پیش کرتا ہوں۔ اگر آپ اسلام لے آئیں گے تو (دین و دنیا میں) سلامتی نصیب ہو گی۔ اللہ آپ کو دوہرا ثواب دے گا اور اگر آپ (میری دعوت سے) روگردانی کریں گے تو آپ کی رعایا کا گناہ بھی آپ ہی پر ہو گا۔ اور اے اہل کتاب! ایک ایسی بات پر آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب بنائے۔ پھر اگر وہ اہل کتاب (اس بات سے) منہ پھیر لیں تو (مسلمانو!) تم ان سے کہہ دو کہ (تم مانو یا نہ مانو) ہم تو ایک اللہ کے اطاعت گزار ہیں۔ ابوسفیان کہتے ہیں: جب ہرقل نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا اور خط پڑھ کر فارغ ہوا تو اس کے اردگرد بہت شور و غوغہ ہوا، بہت سی آوازیں اٹھیں اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ تب میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابوکبشہ کے بیٹے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کا معاملہ تو بہت بڑھ گیا (دیکھو تو) اس سے بنی اصفر (روم) کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے۔ مجھے اس وقت سے اس بات کا یقین ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عنقریب غالب ہو کر رہیں گے۔ حتیٰ کہ اللہ نے مجھے مسلمان کر دیا۔ (راوی کا بیان ہے کہ) ابن ناطور ایلیاء کا حاکم ہرقل کا مصاحب اور شام کے نصاریٰ کا لاٹ پادری بیان کرتا تھا کہ ہرقل جب ایلیاء آیا، ایک دن صبح کو پریشان اٹھا تو اس کے درباریوں نے دریافت کیا کہ آج ہم آپ کی حالت بدلی ہوئی پاتے ہیں۔ (کیا وجہ ہے؟) ابن ناطور کا بیان ہے کہ ہرقل نجومی تھا، علم نجوم میں وہ پوری مہارت رکھتا تھا۔ اس نے اپنے ہم نشینوں کو بتایا کہ میں نے آج رات ستاروں پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والوں کا بادشاہ ہمارے ملک پر غالب آ گیا ہے۔ (بھلا) اس زمانے میں کون لوگ ختنہ کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہود کے سوا کوئی ختنہ نہیں کرتا۔ سو ان کی وجہ سے پریشان نہ ہوں۔ سلطنت کے تمام شہروں میں یہ حکم لکھ بھیجئے کہ وہاں جتنے یہودی ہوں سب قتل کر دئیے جائیں۔ وہ لوگ انہی باتوں میں مشغول تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی لایا گیا۔ جسے شاہ غسان نے بھیجا تھا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کئے۔ جب ہرقل نے (سارے حالات) سن لیے تو کہا کہ جا کر دیکھو وہ ختنہ کئے ہوئے ہے یا نہیں؟ انہوں نے اسے دیکھا تو بتلایا کہ وہ ختنہ کیا ہوا ہے۔ ہرقل نے جب اس شخص سے عرب کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتلایا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں۔ تب ہرقل نے کہا کہ یہ ہی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اس امت کے بادشاہ ہیں جو پیدا ہو چکے ہیں۔ پھر اس نے اپنے ایک دوست کو رومیہ خط لکھا اور وہ بھی علم نجوم میں ہرقل کی طرح ماہر تھا۔ پھر وہاں سے ہرقل حمص چلا گیا۔ ابھی حمص سے نکلا نہیں تھا کہ اس کے دوست کا خط (اس کے جواب میں) آ گیا۔ اس کی رائے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بارے میں ہرقل کے موافق تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم (واقعی) پیغمبر ہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے روم کے بڑے آدمیوں کو اپنے حمص کے محل میں طلب کیا اور اس کے حکم سے محل کے دروازے بند کر لیے گئے۔ پھر وہ (اپنے خاص محل سے) باہر آیا اور کہا اے روم والو! کیا ہدایت اور کامیابی میں کچھ حصہ تمہارے لیے بھی ہے؟ اگر تم اپنی سلطنت کی بقا چاہتے ہو تو پھر اس نبی کی بیعت کر لو اور مسلمان ہو جاؤ (یہ سننا تھا کہ) پھر وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف دوڑے (مگر) انہیں بند پایا۔ آخر جب ہرقل نے (اس بات سے) ان کی یہ نفرت دیکھی اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو کہنے لگا کہ ان لوگوں کو میرے پاس لاؤ۔ (جب وہ دوبارہ آئے) تو اس نے کہا میں نے جو بات کہی تھی اس سے تمہاری دینی پختگی کی آزمائش مقصود تھی سو وہ میں نے دیکھ لی۔ تب (یہ بات سن کر) وہ سب کے سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور اس سے خوش ہو گئے۔ بالآخر ہرقل کی آخری حالت یہ ہی رہی۔ ابوعبداللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو صالح بن کیسان، یونس اور معمر نے بھی زہری سے روایت کیا ہے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5136  
´ذمی (کافر معاہد) کو کس طرح خط لکھا جائے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقل کے نام خط لکھا: اللہ کے رسول محمد کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام، سلام ہو اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔‏‏‏‏ محمد بن یحییٰ کی روایت میں ہے، ابن عباس سے مروی ہے کہ ابوسفیان نے ان سے کہا کہ ہم ہرقل کے پاس گئے، اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھایا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا تو اس میں لکھا تھا: «بسم الله الرحمن الرحيم، من محمد رسول الله إلى هرقل عظيم الروم سلام على من اتبع الهدى أما بعد» ۔ [سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5136]
فوائد ومسائل:

خط ہو یا کوئی اوراہم تحریریں اس کی ابتداء میں بسم الله الرحمٰن الرحيم لکھنا سنت ہے۔
اس کی بجائے عدد لکھنا خلاف سنت اور بدعت سیئہ ہے۔


خط میں پہلے کاتب اپنا نام لکھے اس کے بعد مکتوب الیہ کا

کافر کے نام خط میں مسنون سلام کی بجائے یوں لکھا جائے۔
(وَالسَّلَامُ عَلَىٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَىٰ) سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کا پیروکار ہو۔


اسلام کی دعوت یا کسی اور شرعی غرض سے قرآن مجید کی آیات لکھ دینا بھی جائز ہے۔
اس وجہ سے کے یہ کافر کے ہاتھ میں جایئں گی۔
آیات تحریر کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
الا یہ کہ خوب واضح ہو کہ وہ آیات قرآنیہ کی ہتک کریں گے۔
اس صورت میں یقیناً نہ لکھی جایئں۔
اور یہی مسئلہ قرآن مجید کا ہے۔
دعوت اسلام کی غرض سے کافر کو قرآن مجید دیا جا سکتا ہے۔


دعوت کے میدان کو حتیٰ الامکان پھیلانا چاہیے۔
اور تحریری میدان میں بھی یہ کارخیر سرانجام دیا جانا چاہیے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5136   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7  
7. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ابوسفیان بن حرب ؓ نے ان سے بیان کیا کہ ہرقل (شاہ روم) نے انہیں قریش کی ایک جماعت سمیت بلوایا۔ یہ جماعت (صلح حدیبیہ کے تحت) رسول اللہ ﷺ، ابوسفیان اور کفار قریش کے درمیان طے شدہ عرصہ امن میں ملک شام بغرض تجارت گئی ہوئی تھی۔ یہ لوگ ایلیاء (بیت المقدس) میں اس کے پاس حاضر ہو گئے۔ ہرقل نے انہیں اپنے دربار میں بلایا۔ اس وقت اس کے اردگرد روم کے رئیس بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر اس نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلا کر کہا: یہ شخص جو اپنے آپ کو نبی سمجھتا ہے تم میں سے کون اس کا قریبی رشتہ دار ہے؟ ابوسفیان ؓنے کہا: میں اس کا سب سے زیادہ قریب النسب ہوں۔ تب ہرقل نے کہا: اسے میرے قریب کر دو اور اس کے ساتھیوں کو بھی قریب کر کے اس کے پس پشت بٹھاؤ۔ اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا: ان سے کہو کہ میں اس شخص سے اس آدمی (نبی ﷺ) کے متعلق سوالات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے پہلے وحی نزول وحی، اقسام وحی اور زمانہ وحی سے متعلقہ احادیث بیان کی ہیں۔
اب ضرورت تھی کہ جس شخصیت پر وحی کا نزول ہوا ہے اس مبارک ہستی کا بھی تعارف کرایا جائے، چنانچہ اس حدیث میں موحیٰ الیہ، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال واعمال اورآپ کی تعلیمات کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے، نیز اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر دو زبردست اور ناقابل تردید شہادتیں موجود ہیں:
ایک ابوسفیان کا بیان، جو اس وقت آپ کا سخت دشمن تھا۔
دوسرے ہرقل کی تصدیق، جو اس وقت ایک عظیم سلطنت کا فرمانروا اور مستند عالم اہل کتاب تھا۔
اس کے علاوہ باب کی غرض عظمت وحی کو بیان کرنا بھی ہے۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اوصاف عالیہ کو بیان کیا گیا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہی کی ذات ستودہ صفات وحی الٰہی کی حق دار تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عظمت سے وحی الٰہی کی عظمت خود ظاہر ہے۔

ہرقل روم کے بادشاہ کانام تھا اور اس ملک کے بادشاہ کو قیصر کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔
یہ حدیث اس مناسبت سے حدیث ہرقل کہلاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کفار کی طرف سے بیرونی خلفشار اور اندرونی محاذ آرائی سے فارغ ہوئے توآپ نے مختلف ملوک وسلاطین کو دعوتی خطوط ارسال کیے، چنانچہ آپ نے حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ ایک خط قیصر روم کو بھی روانہ کیا جو ان دنوں ایفائے نذر کے لیے بیت المقدس آیا ہوا تھا۔
ہوا یوں کہ اس وقت دنیا کی دو بری حکومتیں فارس اور روم مدت دراز سے آپس میں ٹکراتی چلی آرہی تھیں۔
بالآخر فارس نے روم کو ایک فیصلہ کن شکست سے دوچار کردیا اور شام، مصر اور ایشیائے کو چک کے تمام ملک رومیوں کے ہاتھ سے نکل گئے۔
ایسے حالات میں قرآن نے پیشین گوئی فرمائی کہ بلاشبہ رومی اہل فارس سے مغلوب ہوچکے ہیں لیکن چند سالوں کے اندر اندر وہ فاتح بن کر ابھریں گے، چنانچہ ہرقل ایسے مایوس کن اور حوصلہ شکن حالات میں اپنا زائل شدہ اقتدار واپس لینے کے لیے سرگرم ہوگیا اور اس وقت نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے مجھے فتح وکامرانی دی تو حمص سے پیدل چل کر بیت المقدس پہنچوں گا اور اللہ کا شکر ادا کروں گا۔
آخر کار اللہ تعالیٰ نے رومی اہل کتاب کو ایرانی مجوسیوں پر غالب کردیا، چنانچہ ان دنوں ایفائے نذر کے لیے ہرقل بیت المقدس آیا ہوا تھا۔

ہرقل کے حوالے سے اس حدیث کا تعلق گویا کتاب بدء الوحی اور کتاب الایمان دونوں سے ہے۔
وحی کے ساتھ تعلق بایں طور ہے کہ ہرقل جو عیسائی مذہب کاحامل تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار کیا جو وحی کا نتیجہ ہے۔
اور اس حدیث کا مابعد کتاب، کتاب الایمان سے تعلق اس طرح ہے کہ ایمان کی امتیازی علامت عمل ومتابعت ہے جو ہرقل میں نہ تھی، تصدیق جلی اور اقرار موجود ہے لیکن اس کے مطابق عمل نہ کرنے سے کافر ہی رہا۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب کو حدیث نیت سے شروع کیا تھا، گویا آپ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر ہرقل کی نیت درست تھی تو اسے کچھ فائدہ پہنچنے کی امید ہے، بصورت دیگر اس کے مقدر میں ہلاکت اور تباہی کےسوا کچھ نہیں۔
(فتح الباري: 1؍61)

ابوسفیان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوکبشہ کی طرف منسوب کیا کہ ابن ابی کبشہ کا معاملہ تو بہت بڑھ گیا ہے۔
دراصل عرب کا یہ طریقہ ہے کہ کسی کو تحقیر واستہزا کے پیش نظر اسے ایسے شخص کی طرف منسوب کردیتے ہیں جو گمنام ہو لیکن اس مقام پر اصل بات یہ ہے کہ عرب میں ابوکبشہ نامی ایک شخص بھی گزرا تھا جس نے اپنا آبائی دین چھوڑ کر شعریٰ ستارے کی پرستش شروع کردی تھی۔
چونکہ ابو کبشہ نے ایک نیا دین اختیار کیاتھا۔
اس لیے ہر وہ شخص جو عرب کے آبائی دین سے ہٹ کر نیا دین اختیار کرتا، اسے ابن ابی کبشہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔
(فتح الباري: 1؍57)
اس سلسلے میں کچھ اور تاویلات بھی کی گئی ہیں، ان تمام میں قدرمشترک یہی ہے کہ ابوسفیان نے مذاق اور حقارت سے یہ اسلوب اختیار کیا۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگرکافر کسی لقب سے معروف ومشہور ہوتو مسلمانوں کے لیے اسے اس کے لقب سے پکارنا جائز ہے۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقل کو عظیم الروم کے لقب سے یاد کیا۔
اسلام دشمنوں کےساتھ نرمی اور ملاطفت کاطریقہ سکھاتا ہے، اس لیے کسی قوم کے معززو مکرم شخص کے لیے اونچے القاب استعمال کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف نہیں۔
اس کا کم از کم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دشمن اگردوستی پر آمادہ نہ ہوتو دشمنی میں کمی ضرور آجاتی ہے ہرقل چونکہ رومیوں کی نظر میں باعظمت تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسےمروجہ لقب ہی سے یاد کیا ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اختتام پر ایسے الفاظ لاتے ہیں جن سے پڑھنے والے کے لیے اپنی آخرت کے متعلق غوروفکر کرنے کی راہیں کھلتی ہیں وقت گزرجاتا ہے عمرختم ہوجاتی ہے لیکن انسان کے اچھے یا بُرے اعمال کے اثرات ختم نہیں ہوتے۔
اللہ تعالیٰ کے ہاں اچھائی یا بُرائی کامعاملہ اس کے خاتمے سے ہوتا ہے۔
ہرقل کا معاملہ بھی ایسا ہی رہا، وہ ایمان نہ لاسکا حالانکہ اسے بہترین مواقع میسر آئے تھے۔
بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ لوگوں کو انجام اور خاتمے کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ ہرقل کا انجام جنت ہوگا یا دوزخ؟ اس سے قطع نظر، تم اپنے خاتمے پر غوروفکر کرو اورآخری حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی تیاری میں اپنے آپ کو مصروف کرو۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب کی چھ احادیث سے یہ سمجھایا ہے کہ آگے کتاب میں جس قدر احکام ومسائل آئیں گے وہ سب وحی الٰہی سے ماخوذ ہیں جو محفوظ عن الخطا اور نہایت ہی عظیم الشان ہیں۔
اور وحی کی عظمت بیان کرنے کے بعد سب سے پہلے کتاب الایمان لائے ہیں جو دین اسلام کی خشت اول ہے اور اسی ایمان پر آخرت میں نجات کامدار ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7