مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ -- 0
34. مسنَد اَنَسِ بنِ مَالِك رَضِیَ اللَّه عَنه
0
حدیث نمبر: 12697
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَطْلُعُ عَلَيْكُمْ الْآنَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ" فَطَلَعَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، تَنْطِفُ لِحْيَتُهُ مِنْ وُضُوئِهِ، قَدْ تَعَلَّقَ نَعْلَيْهِ فِي يَدِهِ الشِّمَالِ، فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ، فَطَلَعَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مِثْلَ الْمَرَّةِ الْأُولَى، فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الثَّالِثُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَقَالَتِهِ أَيْضًا، فَطَلَعَ ذَلِكَ الرَّجُلُ عَلَى مِثْلِ حَالِهِ الْأُولَى، فَلَمَّا قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَبِعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، فَقَالَ: إِنِّي لَاحَيْتُ أَبِي، فَأَقْسَمْتُ أَنْ لَا أَدْخُلَ عَلَيْهِ ثَلَاثًا، فَإِنْ رَأَيْتَ أَنْ تُؤْوِيَنِي إِلَيْكَ حَتَّى تَمْضِيَ، فَعَلْتَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَنَسٌ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُحَدِّثُ أَنَّهُ بَاتَ مَعَهُ تِلْكَ اللَّيَالِي الثَّلَاثَ، فَلَمْ يَرَهُ يَقُومُ مِنَ اللَّيْلِ شَيْئًا، غَيْرَ أَنَّهُ إِذَا تَعَارَّ وَتَقَلَّبَ عَلَى فِرَاشِهِ ذَكَرَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَكَبَّرَ، حَتَّى يَقُومَ لِصَلَاةِ الْفَجْرِ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ غَيْرَ أَنِّي لَمْ أَسْمَعْهُ يَقُولُ إِلَّا خَيْرًا، فَلَمَّا مَضَتْ الثَّلَاثُ لَيَالٍ، وَكِدْتُ أَنْ أَحْتَقِرَ عَمَلَهُ، قُلْتُ يَا عَبْدَ اللَّهِ، إِنِّي لَمْ يَكُنْ بَيْنِي وَبَيْنَ أَبِي غَضَبٌ وَلَا هَجْرٌ ثَمَّ، وَلَكِنْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَكَ ثَلَاثَ مِرَارٍ" يَطْلُعُ عَلَيْكُمْ الْآنَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ" فَطَلَعْتَ أَنْتَ الثَّلَاثَ مِرَارٍ، فَأَرَدْتُ أَنْ آوِيَ إِلَيْكَ، لِأَنْظُرَ مَا عَمَلُكَ فَأَقْتَدِيَ بِهِ، فَلَمْ أَرَكَ تَعْمَلُ كَثِيرَ عَمَلٍ، فَمَا الَّذِي بَلَغَ بِكَ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: مَا هُوَ إِلَّا مَا رَأَيْتَ، قَالَ: فَلَمَّا وَلَّيْتُ دَعَانِي، فَقَالَ: مَا هُوَ إِلَّا مَا رَأَيْتَ، غَيْرَ أَنِّي لَا أَجِدُ فِي نَفْسِي لِأَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ غِشًّا، وَلَا أَحْسُدُ أَحَدًا عَلَى خَيْرٍ أَعْطَاهُ اللَّهُ إِيَّاهُ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ هَذِهِ الَّتِي بَلَغَتْ بِكَ، وَهِيَ الَّتِي لَا نُطِيقُ".
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابھی تھوڑی دیر کے بعد تمہارے پاس ایک جنتی آئے گا، دیکھا تو ایک انصاری صحابی چلے آ رہے ہیں جن کی ڈاڑھی سے وضو کے پانی کے قطرات ٹپک رہے ہیں، انہوں نے اپنے بائیں ہاتھ میں اپنی جوتی اٹھا رکھی ہے، دوسرے دن بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی اعلان کیا اور وہی صحابی آئے، تیسرے دن اعلان کیا تب بھی وہی صحابی رضی اللہ عنہ آئے، تیسرے دن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے تو حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ان صحابی کے پیچھے چلے گئے اور ان سے کہنے لگے کہ میں نے اپنے والد صاحب کو قسمیں دے کر اور بہت اصرار کے بعد اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ میں تین دن تک گھر نہیں جاؤں گا، اگر آپ مجھے اپنے یہاں ٹھہرا سکتے ہیں تو آپ جو عمل کریں گے میں بھی وہی عمل کروں گا، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو اجازت دے دی۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بتاتے ہیں کہ وہ ان تین راتوں میں ان کے ساتھ رہے لیکن کسی رات انہیں قیام کرتے ہوئے نہیں دیکھا، البتہ اتنا ضرور ہوتا تھا کہ جب وہ سو کر بیدار ہوتے اور بستر سے اٹھتے تو اللہ کا ذکر کرتے ہوئے نماز فجر کے لئے اٹھ جاتے، نیز میں نے انہیں ہمیشہ خیر ہی کی بات کرتے ہوئے دیکھا، جب تین راتیں گذر گئیں اور میں اپنی ساری محنت کو حقیر سمجھنے لگا، تو میں نے ان سے کہا کہ بندہ خدا! میرے اور والد صاحب کے درمیان کوئی ناراضگی یا قطع تعلقی نہیں ہے (جس کی وجہ سے میں یہاں رہ پڑا ہوں) لیکن میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین مرتبہ یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا اور تینوں مرتبہ آپ ہی آئے تو مجھے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں آپ کے پاس کچھ وقت گذار کر آپ کے اعمال دیکھوں اور خود بھی اس کی اقتداء کروں، لیکن میں نے آپ کو اس دوران کوئی بہت زیادہ عمل کرتے ہوئے نہیں دیکھا، پھر آپ اس مقام تک کیسے پہنچ گئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے متعلق اتنی بڑی بات فرمائی؟ انہوں نے جواب دیا کہ عمل تو وہی ہے جو آپ نے دیکھا، پھر جب میں پلٹ کر واپس جانے لگا تو انہوں نے مجھے آواز دے کر بلایا تو کہنے لگے کہ عمل تو وہی ہیں جو آپ نے دیکھے، البتہ میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے متعلق کوئی کینہ نہیں رکھتا اور کسی مسلمان کو ملنے والی نعمتوں اور خیر پر اس سے حسد نہیں کرتا، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہی وہ چیز ہے جس نے آپ کو اس درجے تک پہنچایا اور جس کی ہم میں طاقت نہیں ہے۔