مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ -- 0
34. مسنَد اَنَسِ بنِ مَالِك رَضِیَ اللَّه عَنه
0
حدیث نمبر: 12865
(حديث مرفوع) قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: قَرَأْتُ عَلَى أَبِي هَذَا الْحَدِيثَ، وَجَدَهُ فَأَقَرَّ بِهِ، وَحَدَّثَنَا بِبَعْضِهِ فِي مَكَانٍ آخَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ هِلَالٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: تَزَوَّجَ أَبُو طَلْحَةَ أُمَّ سُلَيْمٍ، وَهِيَ أُمُّ أَنَسٍ وَالْبَرَاءِ، قَالَ: فَوَلَدَتْ لَهُ بُنَيًّا، قَالَ: فَكَانَ يُحِبُّهُ حُبًّا شَدِيدًا، قَالَ: فَمَرِضَ الصَّبِيُّ مَرَضًا شَدِيدًا، فَكَانَ أَبُو طَلْحَةَ يَقُومُ صَلَاةَ الْغَدَاةِ يَتَوَضَّأُ، وَيَأْتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُصَلِّي مَعَهُ، وَيَكُونُ مَعَهُ إِلَى قَرِيبٍ مِنْ نِصْفِ النَّهَارِ، فيَجِيءُ يَقِيلُ وَيَأْكُلُ، فَإِذَا صَلَّى الظُّهْرَ تَهَيَّأَ وَذَهَبَ، فَلَمْ يَجِئْ إِلَى صَلَاةِ الْعَتَمَةِ، قَالَ: فَرَاحَ عَشِيَّةً، وَمَاتَ الصَّبِيُّ، قَالَ وَجَاءَ أَبُو طَلْحَةَ، قَالَ فَسَجَتْ عَلَيْهِ ثَوْبًا وَتَرَكَتْهُ، قَالَ فَقَالَ لَهَا أَبُو طَلْحَةَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ، كَيْفَ بَاتَ بُنَيَّ اللَّيْلَةَ؟ قَالَتْ: يَا أَبَا طَلْحَةَ، مَا كَانَ ابْنُكَ مُنْذُ اشْتَكَى أَسْكَنَ مِنْهُ اللَّيْلَةَ، قَالَ: ثُمَّ جَاءَتْهُ بِالطَّعَامِ، فَأَكَلَ وَطَابَتْ نَفْسُهُ، قَالَ: فَقَامَ إِلَى فِرَاشِهِ، فَوَضَعَ رَأْسَهُ، قَالَتْ: وَقُمْتُ أَنَا فَمَسِسْتُ شَيْئًا مِنْ طِيبٍ، ثُمَّ جِئْتُ حَتَّى دَخَلْتُ مَعَهُ الْفِرَاشَ، فَمَا هُوَ إِلَّا أَنْ وَجَدَ رِيحَ الطِّيبِ، كَانَ مِنْهُ مَا يَكُونُ مِنَ الرَّجُلِ إِلَى أَهْلِهِ، قَالَ: ثُمَّ أَصْبَحَ أَبُو طَلْحَةَ يَتَهَيَّأُ كَمَا كَانَ يَتَهَيَّأُ كُلَّ يَوْمٍ، قَالَ: فَقَالَتْ لَهُ: يَا أَبَا طَلْحَةَ، أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا اسْتَوْدَعَكَ وَدِيعَةً فَاسْتَمْتَعْتَ بِهَا، ثُمَّ طَلَبَهَا فَأَخَذَهَا مِنْكَ، تَجْزَعُ مِنْ ذَلِكَ؟ قَالَ: لَا، قَالَتْ: فَإِنَّ ابْنَكَ قَدْ مَاتَ، قَالَ أَنَسٌ فَجَزِعَ عَلَيْهِ جَزَعًا شَدِيدًا، وَحَدَّثَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا كَانَ مِنْ أَمْرِهَا فِي الطَّعَامِ وَالطِّيبِ، وَمَا كَانَ مِنْهُ إِلَيْهَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هِيهِ، فَبِتُّمَا عَرُوسَيْنِ وَهُوَ إِلَى جَنْبِكُمَا!" قَالَ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَارَكَ اللَّهُ لَكُمَا فِي لَيْلَتِكُمَا"، قَالَ: فَحَمَلَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ تِلْكَ اللَّيْلَةَ، قَالَ: فَتَلِدُ غُلَامًا، قَالَ: فَحِينَ أَصْبَحْنَا قَالَ لِي أَبُو طَلْحَةَ: احْمِلْهُ فِي خِرْقَةٍ حَتَّى تَأْتِيَ بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاحْمِلْ مَعَكَ تَمْرَ عَجْوَةٍ، قَالَ: فَحَمَلْتُهُ فِي خِرْقَةٍ، قَالَ: وَلَمْ يُحَنَّكْ، وَلَمْ يَذُقْ طَعَامًا وَلَا شَيْئًا، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَدَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ، قَالَ:" اللَّهُ أَكْبَرُ، مَا وَلَدَتْ؟" قُلْتُ غُلَامًا، قَالَ:" الْحَمْدُ لِلَّهِ" فَقَالَ:" هَاتِهِ إِلَيَّ" فَدَفَعْتُهُ إِلَيْهِ، فَحَنَّكَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ لَهُ" مَعَكَ تَمْرُ عَجْوَةٍ؟" قُلْتُ: نَعَمْ، فَأَخْرَجْتُ تَمَرَاتٍ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَمْرَةً، وَأَلْقَاهَا فِي فِيهِ، فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلُوكُهَا حَتَّى اخْتَلَطَتْ بِرِيقِهِ، ثُمَّ دَفَعَ الصَّبِيَّ، فَمَا هُوَ إِلَّا أَنْ وَجَدَ الصَّبِيُّ حَلَاوَةَ التَّمْرِ، جَعَلَ يَمُصُّ بَعْضَ حَلَاوَةِ التَّمْرِ وَرِيقَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَ أَوَّلُ مَنْ فَتَحَ أَمْعَاءَ ذَلِكَ الصَّبِيِّ عَلَى رِيقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" حِبُّ الْأَنْصَارِ التَّمْرُ"، فَسُمِّيَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي طَلْحَةَ، قَالَ: فَخَرَجَ مِنْهُ رَجُلٌ كَثِيرٌ، قَالَ: وَاسْتُشْهِدَ عَبْدُ اللَّهِ بِفَارِسَ.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ام سلیم رضی اللہ عنہ سے " جو کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں " شادی کرلی، ان کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہوا، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو اس سے بڑی محبت تھی، ایک دن وہ بچہ انتہائی شدید بیمار ہوگیا، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ وہ فجر کی نماز پڑھنے کے لئے اٹھتے تو وضو کر کے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز ادا کرتے، نصف النہار کے قریب تک وہیں رہتے، پھر گھر آکر قیلولہ کرتے، کھانا کھاتے اور ظہر کی نماز کے بعد تیار ہو کر چلے جاتے، پھر عشاء کے وقت ہی واپس آتے، ایک دن وہ دوپہر کو گئے، تو ان کے پیچھے ان کا بیٹا فوت ہوگیا، ان کی زوجہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہ نے اسے کپڑا اوڑھا دیا، جب حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ واپس آئے تو انہوں نے بچے کے بارے پوچھا، انہوں نے بتایا کہ پہلے سے بہتر ہے، پھر ان کے سامنے رات کا کھانا لا کر رکھا، انہوں نے کھانا کھایا، حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہ نے بناؤ سنگھار کیا، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اپنے بستر پر سر رکھ کر لیٹ گئے، وہ کہتی ہیں کہ میں کھڑی ہوگئی اور خوشبو لگا کر آئی اور ان کے ساتھ بستر پر لیٹ گئی، جب انہیں خوشبو کی مہک پہنچی تو انہیں وہی خواہش پید اہوئی جو ہر مرد کو اپنی بیوی سے ہوتی ہے، صبح ہوئی تو وہ حسب معمول تیاری کرنے لگے، حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے ابوطلحہ! اگر کوئی آدمی آپ کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائے آپ اس سے فائدہ اٹھائیں پھر وہ آپ سے اس کا مطالبہ کرے اور وہ چیز آپ سے لے لے تو کیا اس پر آپ جزع فزع کریں گے، انہوں نے کہا نہیں، انہوں نے کہا پھر آپ کا بیٹا فوت ہوگیا ہے، اس پر وہ سخت ناراض ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کھانے کا، خوشبو لگانے کا اور خلوت کا سارا واقعہ بیان کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تعجب ہے کہ وہ بچہ تمہارے پہلو میں پڑا رہا اور تم دونوں نے ایک دوسرے سے خلوت کی، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ایسا ہی ہوا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تمہاری رات کو مبارک فرمائے، چنانچہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہ اسی رات امید سے ہوگئیں اور ان کے یہاں لڑکا پیدا ہوا، صبح ہوئی تو حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ اسے ایک کپڑے میں لپیٹ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤ اور اپنے ساتھ کچھ عمدہ کھجوریں بھی لے جانا، انہوں نے خود اسے گھٹی دی اور نہ ہی کچھ چکھایا، میں نے اسے اٹھا کر ایک کپڑے میں لپیٹا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا لڑکا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے الحمدللہ کہہ کر فرمایا اسے میرے پاس لاؤ، میں نے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑا دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گھٹی دینے کے لئے پوچھا کہ تمہارے پاس عجوہ کھجوریں ہیں؟ میں نے عرض کی جی ہاں! اور کجھوریں نکال لیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کھجور لے کر اپنے منہ میں رکھی اور اسے چباتے رہے، جب وہ لعاب دہن میں مل گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو اس سے گھٹی دی، اسے کھجور کا مزہ آنے لگا اور چوسنے لگا، گویا اس کی انتڑیوں میں سب سے پہلی جو چیز گئی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصار کو کجھور سے بڑی محبت ہے، پھر اس کا نام عبداللہ بن ابی طلحہ رکھا، اس کی نسل خوب چلی اور وہ ایران میں شہید ہوا۔