صحيح البخاري
كِتَاب الْحُدُودِ -- کتاب: حد اور سزاؤں کے بیان میں
5. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ لَعْنِ شَارِبِ الْخَمْرِ وَإِنَّهُ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِنَ الْمِلَّةِ:
باب: شراب پینے والا اسلام سے نکل نہیں جاتا نہ اس پر لعنت کرنی چاہئے۔
حدیث نمبر: 6781
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَكْرَانَ، فَأَمَرَ بِضَرْبِهِ، فَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُهُ بِيَدِهِ، وَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُهُ بِنَعْلِهِ، وَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُهُ بِثَوْبِهِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ رَجُلٌ: مَا لَهُ أَخْزَاهُ اللَّهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَكُونُوا عَوْنَ الشَّيْطَانِ عَلَى أَخِيكُمْ".
ہم سے علی بن عبداللہ بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، ان سے ابن الہاد نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابراہیم نے، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نشہ میں لایا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مارنے کا حکم دیا۔ ہم میں سے بعض نے انہیں ہاتھ سے مارا، بعض نے جوتے سے مارا اور بعض نے کپڑے سے مارا۔ جب مار چکے تو ایک شخص نے کہا، کیا ہو گیا اسے؟ اللہ اسے رسوا کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بھائی کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4477  
´شراب کی حد کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا جس نے شراب پی رکھی تھی، تو آپ نے فرمایا: اسے مارو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو ہم میں سے کسی نے ہاتھ سے، کسی نے جوتے سے، اور کسی نے کپڑے سے، اسے مارا، پھر جب فارغ ہوئے تو کسی نے کہا: اللہ تجھے رسوا کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کہو اس کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4477]
فوائد ومسائل:
انسان خطا کا پتلا ہے چاہئے کہ خطاکار کو احسن انداز سے نصیحت کی جائے۔
اس انداز کی ڈانٹ ڈپٹ کہ اس کے منفی جذبات کو ابھارے مناسب نہیں، اس سے گویا شیطان کی مدد ہوتی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4477   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6781  
6781. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے پاس ایک شخص نشے کی حالت میں لایا گیا تو آپ ﷺ نے اسے مارنے کا حکم دیا، چنانچہ ہم میں کچھ لوگوں نے اسے جوتے مارے جبکہ کچھ لوگوں نے کپڑوں (کو بٹ دے کر ان) سے اس کی مرمت کی۔ جب وہ چلا گیا تو ایک شخص نے کہا: اسے کیا ہو گیا ہے اللہ تعالٰی اس کو رسوا کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے بھائی کے خلاف شیطان کے مددگار نہ بنو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6781]
حدیث حاشیہ:
اللہ کی حد کو بخوشی برداشت کرنا ہی اس گنہگار کے مومن ہونے کی دلیل ہے پس حد قائم کرنے کے بعد اس پر لعن طعن کرنا منع ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6781   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6781  
6781. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے پاس ایک شخص نشے کی حالت میں لایا گیا تو آپ ﷺ نے اسے مارنے کا حکم دیا، چنانچہ ہم میں کچھ لوگوں نے اسے جوتے مارے جبکہ کچھ لوگوں نے کپڑوں (کو بٹ دے کر ان) سے اس کی مرمت کی۔ جب وہ چلا گیا تو ایک شخص نے کہا: اسے کیا ہو گیا ہے اللہ تعالٰی اس کو رسوا کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے بھائی کے خلاف شیطان کے مددگار نہ بنو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6781]
حدیث حاشیہ:
(1)
جب کوئی اپنے جرم کی سزا بھگت لے تو اسے برا بھلا کہنا یا اس پر لعنت کرنا درست نہیں بلکہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش اور رحم کی دعا کرو۔
اور مارنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اسے شرمسار کرو تو لوگوں نے اسے کہا تو اللہ سے نہیں ڈرتا، تجھے اس کے عذاب سے خوف نہیں آتا، تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حیا نہیں آتی، اسے ملامت کرنے کے بعد چھوڑ دیا گیا۔
(سنن أبي داود، الحدود، حدیث: 4478) (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے شارح صحیح بخاری ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ معین شخص پر لعنت کرنا مطلق طور پر منع ہے، البتہ نام لیے بغیر برا کام کرنے پر لعنت کرنا جائز ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ممکن ہے کہ وہ باز آجائے، البتہ نام لے کر لعنت کرنا اس کے لیے باعث اذیت ہے اور مسلمان کو اذیت پہنچانا جائز نہیں۔
معین شخص پر لعنت کرنا اس لیے بھی منع ہے کہ ایسا کرنے سے وہ گنا ہ پر ڈٹ جائے گا اور توبہ سے مایوس ہوکر اس گندے کام پر دلیر ہوگا۔
بعض حضرات نے نام لے کر لعنت کرنے کو جائز قرار دیا ہے لیکن ان کا موقف راجح نہیں۔
(فتح الباري: 93/12)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6781