صحيح البخاري
كِتَاب الْحُدُودِ -- کتاب: حد اور سزاؤں کے بیان میں
11. بَابُ إِقَامَةِ الْحُدُودِ عَلَى الشَّرِيفِ وَالْوَضِيعِ:
باب: کوئی بلند مرتبہ شخص ہو یا کم مرتبہ سب پر برابر حد قائم کرنا۔
حدیث نمبر: 6787
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ أُسَامَةَ كَلَّمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي امْرَأَةٍ، فَقَالَ:" إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، أَنَّهُمْ كَانُوا يُقِيمُونَ الْحَدَّ عَلَى الْوَضِيعِ، وَيَتْرُكُونَ الشَّرِيفَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ فَعَلَتْ ذَلِكَ، لَقَطَعْتُ يَدَهَا".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک عورت کی (جس پر حدی مقدمہ ہونے والا تھا) سفارش کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے کے لوگ اس لیے ہلاک ہو گئے کہ وہ کمزوروں پر تو حد قائم کرتے اور بلند مرتبہ لوگوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر فاطمہ (رضی اللہ عنہا) نے بھی (چوری) کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ لیتا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2547  
´حدود میں سفارش کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت کے معاملے میں جس نے چوری کی تھی، قریش کافی فکرمند ہوئے اور کہا: اس کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کون گفتگو کرے گا؟ لوگوں نے جواب دیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے علاوہ کون اس کی جرات کر سکتا ہے؟ چنانچہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر رہے ہو؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے ہوئے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2547]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
بنومخزوم کی اس خاتون کا نام فاطمہ بنت اسود بن عبدالاسد تھا جوابوسلمہ کی بھتیجی تھی۔
یہ ابوسلمہ ام المومنین ام سلمہ کے پہلے شوہر تھے۔ (فتح الباري، 108/12)

(2)
حضرت زید بن حارثہ رسول اللہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔
جنھیں رسول اللہﷺ نے منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا۔
بعد میں اللہ تعالیٰ نے منہ بولا بیٹا بنانے سے منع فرما دیا۔
حضرت اسامہ ان کے بیٹے تھے اور رسول اللہ ﷺان سے بہت محبت کرتے تھے۔

(3)
حضرت اسامہ کو رسول اللہﷺ کی خدمت عرض کرنے کے لیے اس لیے منتخب کیا گیا ہے کہ وہ کمسن بچے تھےاس لیے خیال تھا کہ رسول اللہ ﷺنے سفارش نہ بھی مانی تو اسامہ سے ناراض نہیں ہوں گئے کیونکہ وہ بچے تھے۔

(4)
حدود کے نفاذ میں کسی کی رعایت نہیں جائز نہیں۔

(5)
قانون کے نفاذ میں امیر غریب کا فرق کرنا اللہ کے غضب کا موجب ہے کیونکہ اس سے قانون کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔

(6)
جس غلطی میں متعدد افراد شریک ہوں اس کی شناعت سب کے سامنے ذکر کر دینی چاہیے تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی تنبیہ ہو۔

(7)
اپنی بات میں قسم کھانا جائزہے اگرچہ کسی کو اس پر شک نہ ہو البتہ بلاضرورت قسم کھانا مکروہ ہے۔
اور جھوٹی قسم کھانا حرام اور بڑا گناہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2547   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1056  
´چوری کی حد کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو اللہ کی مقرر کردہ حدود میں سے ایک حد میں سفارش کرتا ہے؟ یہ فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے پھر خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا لوگو! بیشک تم سے پہلے لوگ اس وجہ سے ہلاک و تباہ ہوئے کہ جب ان سے کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب ان میں کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کر دیتے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ اور مسلم میں ایک اور سند سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے منقول ہے کہ ایک عورت لوگوں سے ادھار مانگا کرتی تھی اور پھر انکار کر دیتی تھی۔ پس اس عورت کے ہاتھ کاٹنے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم صادر فرمایا۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1056»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الحدود، باب كراهية الشفاعة في الحد إذا رفع إلي السطان، حديث:6788، ومسلم، الحدود، باب قطع السارق الشريف وغيره...، حديث:1688.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت سے امام احمد‘ امام اسحق رحمہما اللہ اور ظاہریہ نے استدلال کیا ہے کہ جو عاریتاً چیز لے کر انکار کرے اس کا ہاتھ کاٹنا واجب ہے مگر جمہور کی رائے ہے کہ انکار پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا کیونکہ مخزومیہ خاتون کا قصہ کئی سندوں سے مروی ہے۔
اکثر روایات میں ہے کہ وہ چوری کرتی تھی اور بعض میں یہاں تک صراحت ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے چادر چوری کی تھی‘ چنانچہ اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم چوری کی وجہ سے تھا۔
2.رہا اس کے عاریتاً لے کر انکار کرنے کا ذکر تو وہ اس کی عادت تھی اور اپنی اسی عادت کی بنا پر وہ اس طرح معروف و مشہور تھی‘ جیسے وہ قبیلۂمخزوم سے ہونے کی وجہ سے مخزومیہ مشہور تھی‘ اس لیے یہ مفہوم قطعاً نہیں کہ اس کے لیے قطع ید کی سزا کا حکم عاریتاً لی ہوئی چیز کے انکار کرنے کی وجہ سے تھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1056   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1430  
´حد میں سفارش کرنا مکروہ ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ قریش قبیلہ بنو مخزوم کی ایک عورت ۱؎ کے معاملے میں جس نے چوری کی تھی، کافی فکرمند ہوئے، وہ کہنے لگے: اس کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کون گفتگو کرے گا؟ لوگوں نے جواب دیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے اسامہ بن زید کے علاوہ کون اس کی جرات کر سکتا ہے؟ چنانچہ اسامہ نے آپ سے گفتگو کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر رہے ہو؟ پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا: لوگو! تم سے پہلے کے لوگ اپنی اس روش کی بنا پر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الحدود/حدیث: 1430]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
قبیلہ بنو مخزوم کی اس عورت کا نام فاطمہ بنت اسود تھا،
اس کی یہ عادت بھی تھی کہ جب کسی سے کوئی سامان ضرورت پڑنے پر لے لیتی توپھر اس سے مکر جاتی۔

2؎:
نبی اکرمﷺ کا ارشاد کہ اگر محمد کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی،
یہ بالفرض والتقدیر ہے،
ورنہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شان اس سے کہیں عظیم تر ہے کہ وہ ایسی کسی غلطی میں مبتلا ہوں،
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سارے اہل بیت کی عفت وطہارت کی خبر دی ہے ﴿إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا﴾  (الأحزاب: 33) فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم ﷺکے نزدیک آپﷺ کے اہل خانہ میں سب سے زیادہ عزیز تھیں اسی لیے ان کے ذریعہ مثال بیان کی گئی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1430   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4373  
´شرعی حدود کو ختم کرنے کے لیے سفارش نہیں کی جا سکتی۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قریش کو ایک مخزومی عورت جس نے چوری کی تھی کے معاملہ نے فکرمند کر دیا، وہ کہنے لگے: اس عورت کے سلسلہ میں کون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرے گا؟ لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے سوا اور کس کو اس کی جرات ہو سکتی ہے؟ چنانچہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے اس سلسلہ میں گفتگو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسامہ! کیا تم اللہ کے حدود میں سے ایک حد کے سلسلہ میں مجھ سے سفارش کرتے ہو! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور خطبہ د۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4373]
فوائد ومسائل:
1) مقدمہ عدالت میں پہنچ جانے کے بعد شرعی حدود کو ٹالنے کے لئے سفارش کرنا بہت بڑا گناہ اور جرم ہے۔

2) قانون معاشرے کے سب افراد کے لئے برابر ہونا چاہئے۔

3) گزشتہ قوموں کی ہلاکت کا ایک اہم سبب ان میں رائج طبقاتی امتیاز بھی تھا، اسلام نے سختی کے ساتھ اسے روکا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4373   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6787  
6787. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ حضرت اسامہ بن زید ؓ نے نبی ﷺ سے ایک عورت کے متعلق سفارش کی تو آپ نے فرمایا: تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ وہ کمزور وحقیر پر تو حد قائم کرتے تھے اور بلند مرتبہ لوگوں کو چھوڑ دیتے تھے مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر (میری بیٹی) فاطمہ‬ ؓ ن‬ے بھی یہ (چوری) کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6787]
حدیث حاشیہ:
اسلامی حدود کا اجر بہرحال لابدی ہے بشرطیکہ مقدمہ اسلامی اسٹیٹ میں اسلامی عدالت میں ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6787   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6787  
6787. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ حضرت اسامہ بن زید ؓ نے نبی ﷺ سے ایک عورت کے متعلق سفارش کی تو آپ نے فرمایا: تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ وہ کمزور وحقیر پر تو حد قائم کرتے تھے اور بلند مرتبہ لوگوں کو چھوڑ دیتے تھے مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر (میری بیٹی) فاطمہ‬ ؓ ن‬ے بھی یہ (چوری) کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6787]
حدیث حاشیہ:
مذکورہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ارشاد فرمائے جب فتح مکہ کہ موقع پر قبیلۂ مخزوم کی فاطمہ نامی ایک عورت نے چوری کی تھی اور اس کا ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔
مقصد یہ ہے کہ حدود اللہ کے قیام ونفاذ کسی معزز اور معمولی وحقیر میں فرق نہ کیا جائے۔
ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بلند مرتبہ لوگوں کو چھوڑ دیا جائے اور کمزوروناتواں پر حد جاری کر دی جائے۔
جو ان میں فرق کرے گا وہ اسلام کے طریقے کی مخالفت کرتا ہے اور ایسا کرنا معاشرے کی تباہی کا باعث ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6787