مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ -- 0
34. مسنَد اَنَسِ بنِ مَالِك رَضِیَ اللَّه عَنه
0
حدیث نمبر: 13026
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: مَاتَ ابْنٌ لِأَبِي طَلْحَةَ مِنْ أُمِّ سُلَيْمٍ، فَقَالَتْ لِأَهْلِهَا: لَا تُحَدِّثُوا أَبَا طَلْحَةَ بِابْنِهِ حَتَّى أَكُونَ أَنَا أُحَدِّثُهُ، قَالَ: فَجَاءَ فَقَرَّبَتْ إِلَيْهِ عَشَاءً، فَأَكَلَ وَشَرِبَ، قَالَ: ثُمَّ تَصَنَّعَتْ لَهُ أَحْسَنَ مَا كَانَتْ تَصَنَّعُ قَبْلَ ذَلِكَ، فَوَقَعَ بِهَا، فَلَمَّا رَأَتْ أَنَّهُ قَدْ شَبِعَ، وَأَصَابَ مِنْهَا، قَالَتْ: يَا أَبَا طَلْحَةَ، أَرَأَيْتَ أَنَّ قَوْمًا أَعَارُوا عَارِيَتَهُمْ أَهْلَ بَيْتٍ، وَطَلَبُوا عَارِيَتَهُمْ، أَلَهُمْ أَنْ يَمْنَعُوهُمْ؟ قَالَ: لَا، قَالَتْ: فَاحْتَسِبْ ابْنَكَ، فَانْطَلَقَ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ بِمَا كَانَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَارَكَ اللَّهُ لَكُمَا فِي غَابِرِ لَيْلَتِكُمَا" قَالَ: فَحَمَلَتْ، قَالَ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ وَهِيَ مَعَهُ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَى الْمَدِينَةَ مِنْ سَفَرٍ لَا يَطْرُقُهَا طُرُوقًا، فَدَنَوْا مِنَ الْمَدِينَةِ، فَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ، وَاحْتَبَسَ عَلَيْهَا أَبُو طَلْحَةَ، وَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا رَبِّ، إِنَّكَ لَتَعْلَمُ أَنَّهُ يُعْجِبُنِي أَنْ أَخْرُجَ مَعَ رَسُولِكَ إِذَا خَرَجَ، وَأَدْخُلَ مَعَهُ إِذَا دَخَلَ، وَقَدْ احْتَبَسْتُ بِمَا تَرَى، قَالَ: تَقُولُ أُمُّ سُلَيْمٍ: يَا أَبَا طَلْحَةَ، مَا أَجِدُ الَّذِي كُنْتُ أَجِدُ، فَانْطَلَقْنَا، قَالَ: وَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ حِينَ قَدِمُوا، فَوَلَدَتْ غُلَامًا، فَقَالَتْ لِي أُمِّي: يَا أَنَسُ، لَا يُرْضِعَنَّهُ أَحَدٌ حَتَّى تَغْدُوَ بِهِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَلَمَّا أَصْبَحْتُ احْتَمَلْتُهُ وَانْطَلَقْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَصَادَفْتُهُ وَمَعَهُ مِيْسَمٌ، فَلَمَّا رَآنِي، قَالَ:" لَعَلَّ أُمَّ سُلَيْمٍ وَلَدَتْ؟" قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَضَعَ الْمِيسَمَ، قَالَ: فَجِئْتُ بِهِ فَوَضَعْتُهُ فِي حِجْرِهِ، قَالَ: وَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَجْوَةٍ مِنْ عَجْوَةِ الْمَدِينَةِ، فَلَاكَهَا فِي فِيهِ حَتَّى ذَابَتْ، ثُمَّ قَذَفَهَا فِي فِي الصَّبِيِّ، فَجَعَلَ الصَّبِيُّ يَتَلَمَّظُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" انْظُرُوا إِلَى حُبِّ الْأَنْصَارِ التَّمْرَ" قَال: فَمَسَحَ وَجْهَهُ، وَسَمَّاهُ عَبْدَ اللَّهِ.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک بیٹا بیمار تھا، وہ فوت ہوگیا، ان کی زوجہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہ نے گھر والوں سے کہہ دیا کہ تم میں سے کوئی بھی ابوطلحہ کو ان کے بیٹے کی موت کی خبر نہ دے، چنانچہ جب حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ واپس آئے ان کے سامنے رات کا کھانا لا کر رکھا انہوں نے کھانا کھایا اور پانی پیا، پھر حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہ نے خوب اچھی طرح بناؤ سنگھار کیا، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ان سے خلوت کی، جب انہوں نے دیکھا کہ وہ اچھی طرح سیراب ہوچکے ہیں تو انہوں نے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے ابوطلحہ! دیکھیں تو سہی فلاں لوگوں نے عاریۃً کوئی چیز لی، اس سے فائدہ اٹھاتے رہے جب ان سے واپسی کا مطالبہ ہو، کیا وہ انکار کرسکتے ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں، انہوں نے کہا کہ پھر اپنے بیٹے پر صبر کیجئے۔ صبح ہوئی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ ذکر کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تم دونوں میاں بیوی کے لئے اس رات کو مبارک فرمائے، چنانچہ وہ امید سے ہوگئیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے، حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہ بھی ان کے ہمراہ تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ سفر سے واپس آنے کے بعد رات کے وقت مدینہ میں داخل نہیں ہوتے تھے، وہ مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہ کو درد کی شدت نے ستایا، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ رک گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے۔ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ اے اللہ! تو جانتا ہے کہ مجھے یہ بات بڑی محبوب ہے کہ تیرے رسول جب مدینہ سے نکلیں تو میں ان کے ساتھ نکلوں اور جب داخل ہوں تو میں بھی داخل ہوں اور اب تو دیکھ رہا ہے کہ میں کیسے رک گیا ہوں، حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے ابوطلحہ! اب مجھے درد کی شدت محسوس نہیں ہو رہی، لہٰذا ہم روانہ ہوگئے اور مدینہ پہنچ کر ان کی تکلیف دوبارہ بڑھ گئی اور بالآخر ان کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا، انہوں نے مجھ سے کہا کہ انس! اسے کوئی عورت دودھ نہ پلائے، بلکہ تم پہلے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر جاؤ، چنانچہ صبح کو میں اس بچے کو اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹوں کو قطران مل رہے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا شاید ام سلیم کے یہاں بچہ پیدا ہوا ہے، میں نے عرض کیا جی ہاں! اور اس بچے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں رکھ دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عجوہ کھجوریں منگوائیں، ایک کجھور لے کر اسے منہ میں چبا کر نرم کیا اور تھوک جمع کر کے اس کے منہ میں ٹپکا دیا جسے وہ چاٹنے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کھجور انصار کی محبوب چیز ہے اور اس کا نام عبداللہ رکھ دیا۔