صحيح البخاري
كتاب المحاربين -- کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمانوں سے لڑتے ہیں
21. بَابُ رَجْمِ الْمُحْصَنِ:
باب: محصن (شادی شدہ کو زنا کی علت میں) سنگسار کرنا۔
حدیث نمبر: 6813
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ" سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى هَلْ رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: قَبْلَ سُورَةِ النُّورِ أَمْ بَعْدُ؟ قَالَ: لَا أَدْرِي".
مجھ سے اسحاق واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد طحان نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے کہا میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو رجم کیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں میں نے پوچھا: سورۃ النور سے پہلے یا اس کے بعد کہا کہ یہ مجھے معلوم نہیں (امر نامعلوم کے لیے اظہار لاعلمی کر دینا بھی امر محمود ہے)۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6813  
6813. سلیمان شیبانی سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ نے کسی کو رجم کیا تھا؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا: سورہ نور کے نازل ہونے سے پہلے یا بعد انہوں نے فرمایا: یہ مجھے معلوم نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6813]
حدیث حاشیہ:
یعنی قانون رجم طریقہ محمدی ہے جو اس برائی کو ختم کرنے کے لیے تیر بہدف ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6813   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6813  
6813. سلیمان شیبانی سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ نے کسی کو رجم کیا تھا؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا: سورہ نور کے نازل ہونے سے پہلے یا بعد انہوں نے فرمایا: یہ مجھے معلوم نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6813]
حدیث حاشیہ:
(1)
سورۂ نور سے مراد اس کی درج ذیل آیت کریمہ ہے:
زانی عورت یا مرد ان میں سے ہر ایک کو سو، سوکوڑے لگاؤ۔
(النور24: 2)
اس کے متعلق سوال کرنے کا فائدہ یہ تھا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نازل ہونے سے پہلے رجم کیا ہے تو ممکن ہے کہ آیت کریمہ سے وہ رجم منسوخ ہوگیا ہو کیونکہ اس آیت میں کوڑے لگانے کا ذکر ہے اور اگر بعد میں اس کا نزول ہوا ہے تو ممکن ہے کہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا اس آیت سے مخصوص ہو، لیکن صحابی نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا کہ وہ مجھے معلوم نہیں۔
(2)
حقیقت یہ ہے کہ ان آیات کا نزول سزائے رجم سے پہلے ہے کیونکہ یہ سورت 6 ہجری میں نازل ہوئی ہے اور رجم کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں جو فتح خیبر کے موقع پر سات ہجری میں مسلمان ہوئے تھے۔
اس طرح رجم سے متعلقہ واقعے کی روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے۔
(صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6824)
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنی والدہ کے ہمراہ نو ہجری میں مدینہ طیبہ تشریف لائے تھے۔
(فتح الباري: 147/12)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6813