صحيح البخاري
كتاب المحاربين -- کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمانوں سے لڑتے ہیں
46. بَابُ هَلْ يَأْمُرُ الإِمَامُ رَجُلاً فَيَضْرِبُ الْحَدَّ غَائِبًا عَنْهُ وقد فعله عمر:
باب: اگر امام کسی شخص کو حکم کرے کہ جا فلاں شخص کو حد لگا جو غائب ہو (یعنی امام کے پاس موجود نہ ہو)، عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا ہے۔
حدیث نمبر: 6859
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَا:" جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ إِلَّا قَضَيْتَ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، فَقَامَ خَصْمُهُ وَكَانَ أَفْقَهَ مِنْهُ، فَقَالَ: صَدَقَ اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَأْذَنْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُلْ، فَقَالَ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا فِي أَهْلِ هَذَا، فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ وَخَادِمٍ، وَإِنِّي سَأَلْتُ رِجَالًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي جَلْدَ مِائَةٍ وَتَغْرِيبَ عَامٍ، وَأَنَّ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا الرَّجْمَ، فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، الْمِائَةُ وَالْخَادِمُ رَدٌّ عَلَيْكَ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَيَا أُنَيْسُ: اغْدُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا فَسَلْهَا، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ، فَارْجُمْهَا" فَاعْتَرَفَتْ: فَرَجَمَهَا.
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کر دیں۔ اس پر فریق مخالف کھڑا ہوا، یہ زیادہ سمجھدار تھا اور کہا کہ انہوں نے سچ کہا۔ ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کیجئے اور یا رسول اللہ! مجھے (گفتگو کی) اجازت دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہئے۔ انہوں نے کہا کہ میرا لڑکا ان کے یہاں مزدوری کرتا تھا پھر اس نے ان کی بیوی کے ساتھ زنا کر لیا۔ میں نے اس کے فدیہ میں ایک سو بکریاں اور ایک خادم دیا پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کو سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی کی سزا ملنی چاہئے اور اس کی بیوی کو رجم کیا جائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق ہی کروں گا۔ سو بکریاں اور خادم تمہیں واپس ملیں گے اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی کی سزا دی جائے گی اور اے انیس اس عورت کے پاس صبح جانا اور اس سے پوچھنا اگر وہ زنا کا اقرار کر لے تو اسے رجم کرنا، اس عورت نے اقرار کر لیا اور وہ رجم کر دی گئی۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6859  
6859. حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت زید بن خالد جہینی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک شخص نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں کہ آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کریں اس کا مد مقابل کھڑا ہوا اور وہ اس سے زیادہ سمجھدار تھا۔ اس نے کہا: ہاں یہ سچ کہتا ہے بلاشبہ آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق ہی فیصلہ کریں، تاہم اللہ کے رسول! مجھے بات کرنے کی اجازت دیں۔ آپ نے فرمایا: کہو اس نے کہا: میرا بیٹا اس کے گھر خدمت گار تھا۔ اس نے اس کی بیوی سے زنا کرلیا۔ میں نے اس کے عوض ایک سو بکریاں اورخادم بطور فدیہ ادا کیا۔ میں نے اہل علم سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال جلاوطنی واجب ہے اور اس شخص کی بیوی پر حد رجم ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تمہارے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6859]
حدیث حاشیہ:
اس طرح کا ایک عنوان (34)
پہلے بھی گزر چکا ہے۔
ابن بطال نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ اس تکرار کی ضرورت نہیں لیکن ان میں کچھ فرق ہے۔
پہلے عنوان کا تقاضا ہے کہ حاکم وقت جسے سنگسار کا حکم دے، یعنی مامور اس سے غائب ہو اور دوسرے عنوان کا مطلب ہے کہ جسے سنگسار کرنا ہے وہ حاکم وقت سے غائب دور ہو۔
اگر چہ دونوں کا نتیجہ ایک ہے، تاہم کچھ فرق ضرور ہے۔
(فتح الباري: 198/12)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6859