صحيح البخاري
كِتَاب الدِّيَاتِ -- کتاب: دیتوں کے بیان میں
8. بَابُ مَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ فَهْوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ:
باب: جس کا کوئی قتل کر دیا گیا ہو اسے دو چیزوں میں ایک کا اختیار ہے۔
حدیث نمبر: 6881
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَتْ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ قِصَاصٌ وَلَمْ تَكُنْ فِيهِمُ الدِّيَةُ، فَقَالَ اللَّهُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ: كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى إِلَى هَذِهِ الْآيَةِ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ سورة البقرة آية 178، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَالْعَفْوُ أَنْ يَقْبَلَ الدِّيَةَ فِي الْعَمْدِ، قَالَ: فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ أَنْ يَطْلُبَ بِمَعْرُوفٍ وَيُؤَدِّيَ بِإِحْسَانٍ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، ان سے مجاہد بن جبیر نے بیان کیا، اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ بنی اسرائیل میں صرف قصاص کا رواج تھا، دیت کی صورت نہیں تھی۔ پھر اس امت کے لیے یہ حکم نازل ہوا «كتب عليكم القصاص في القتلى‏» الخ۔ ابن عباس نے کہا «فمن عفي له من أخيه شىء‏» سے یہی مراد ہے کہ مقتول کے وارث قتل عمد میں دیت پر راضی ہو جائیں اور «فاتباع بالمعروف‏» سے یہ مراد ہے کہ مقتول کے وارث دستور کے موافق قاتل سے دیت کا تقاضا کریں «وآداء اليه باحسان» سے یہ مراد ہے کہ قاتل اچھی طرح خوش دلی سے دیت ادا کرے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6881  
6881. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: بنی اسرائیل میں قصاص تھا: دیت نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے فرمایا: اے ایمان والو! قتل کے مقدمات میں تم پر قصاص فرض کیا گیا ہے۔ پھر اگر قاتل کو اس کا بھائی کوئی چیز (قصاص) معاف کر دے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: عفو یہ ہے کہ مقتول کے وارث قتل عمد میں دیت پر راضی ہو جائیں۔ اور اتباع بالمعروف یہ ہے کہ متقول کے وارث دستور کے مطابق قاتل سے دیت کا مطالبہ کریں اور قاتل اچھی طرح خوش دلی سے دیت ادا کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6881]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قتل عمد میں دیت قبول کرنے یا قصاص لینے کا اختیار مقتول کے ورثاء کو ہے،اس میں قاتل کی رضامندی شرط نہیں۔
یہود کے ہاں صرف قصاص تھا جبکہ نصاریٰ میں قصاص کے بجائے معافی تھی لیکن اسلام نے اس افراط وتفریط کے درمیان میانہ روی کو اختیار کیا ہے کہ مقتول کے ورثاء اگر دیت پر راضی ہوجائیں تو انھیں اختیار ہے۔
اگر قاتل قصاص دینے پر اصرار کرے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اسے بھی دیت دینے پر مجبور کیا جائے کیونکہ قاتل بھی اپنی جان کی حفاظت کا ذمے دار ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
خود کو قتل نہ کرو۔
(النساء4: 29)
اس لیے جب مقتول کے ورثاء دیت لینے پر رضامند ہوں تو قاتل کو اس سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث ابن عباس سے اس موقف کو ثابت کیا ہے۔
(فتح الباري: 255/12، 256)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6881