صحيح البخاري
كِتَاب الدِّيَاتِ -- کتاب: دیتوں کے بیان میں
10. بَابُ الْعَفْوِ فِي الْخَطَإِ بَعْدَ الْمَوْتِ:
باب: قتل خطا میں مقتول کی موت کے بعد اس کے وارث کا معاف کرنا۔
حدیث نمبر: 6883
حَدَّثَنَا فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، هُزِمَ الْمُشْرِكُونَ يَوْمَ أُحُدٍ. ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ يَحْيَى بْنُ أَبِي زَكَرِيَّاءَ يَعْنِي الْوَاسِطِيَّ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" صَرَخَ إِبْلِيسُ يَوْمَ أُحُدٍ فِي النَّاسِ: يَا عِبَادَ اللَّهِ، أُخْرَاكُمْ فَرَجَعَتْ أُولَاهُمْ عَلَى أُخْرَاهُمْ حَتَّى قَتَلُوا الْيَمَانِ" فَقَالَ حُذَيْفَةُ: أَبِي أَبِي، فَقَتَلُوهُ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: غَفَرَ اللَّهُ لَكُمْ، قَالَ: وَقَدْ كَانَ انْهَزَمَ مِنْهُمْ قَوْمٌ حَتَّى لَحِقُوا بِالطَّائِفِ.
ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ مشرکین نے احد کی لڑائی میں پہلے شکست کھائی تھی (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا مجھ سے محمد بن حرب نے بیان کیا، ان سے ابومروان یحییٰ ابن ابی زکریا نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابلیس احد کی لڑائی میں لوگوں میں چیخا۔ اے اللہ کے بندو! اپنے پیچھے والوں سے، مگر یہ سنتے ہی آگے کے مسلمان پیچھے کی طرف پلٹ پڑے یہاں تک کہ مسلمانوں نے (غلطی میں) حذیفہ کے والد یمان رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا۔ اس پر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ میرے والد ہیں، میرے والد! لیکن انہیں قتل ہی کر ڈالا۔ پھر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ تمہاری مغفرت کرے۔ بیان کیا کہ مشرکین کی ایک جماعت میدان سے بھاگ کر طائف تک پہنچ گئی تھی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6883  
6883. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ غزوہ احد میں مشرکین نے پہلے مسلمانوں سے شکست کھائی تھی۔ ایک دوسری روایت کے مطابق سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: غزوہ احد میں ابلیس لوگوں میں بآواز بلند چلایا: اے اللہ کے بندو! اپنے پیچھے والوں کو قتل کرو۔ اس کے بعد آگے والے اپنے پچھلوں پر ٹوٹ پڑے حتیٰ کہ انہوں نے حضرت یمان ؓ کو قتل کر دیا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: یہ میرے والد ہیں۔ یہ میرے والد ہیں لیکن لوگوں نے انہیں قتل کر کے دم لیا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: اللہ تمہاری مغفرت کرے۔ راوی کا بیان ہے کہ مشرکین میں سے کچھ لوگ بھاگ کر طائف تک پہنچ چکے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6883]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ مسلمانوں نے خطا سے حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد مسلمان کو مار ڈالا اور حذیفہ رضی اللہ عنہ نے معاف کر دیا کہ دیت کا مطالبہ نہیں چاہتے ہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے دیت دلائی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6883   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6883  
6883. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ غزوہ احد میں مشرکین نے پہلے مسلمانوں سے شکست کھائی تھی۔ ایک دوسری روایت کے مطابق سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: غزوہ احد میں ابلیس لوگوں میں بآواز بلند چلایا: اے اللہ کے بندو! اپنے پیچھے والوں کو قتل کرو۔ اس کے بعد آگے والے اپنے پچھلوں پر ٹوٹ پڑے حتیٰ کہ انہوں نے حضرت یمان ؓ کو قتل کر دیا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: یہ میرے والد ہیں۔ یہ میرے والد ہیں لیکن لوگوں نے انہیں قتل کر کے دم لیا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: اللہ تمہاری مغفرت کرے۔ راوی کا بیان ہے کہ مشرکین میں سے کچھ لوگ بھاگ کر طائف تک پہنچ چکے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6883]
حدیث حاشیہ:
(1)
مسلمانوں نے غلطی سے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد گرامی حضرت یمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔
چونکہ یہ قتل غلطی سے ہوا تھا، اس لیے ان کی شہادت کے بعد حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے انھیں اپنے باپ کا خون معاف کر دیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو دیت ادا کر دی۔
(2)
موت سے پہلے معافی کا حق مقتول کو ہے کہ وہ اپنے قاتل کو معاف کر دے جیسا کہ حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جب اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی تو کسی نے انھیں تیر مارا، آپ مرنے کے قریب ہوئے تو اپنے قاتل کو معاف کر دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی معافی کو برقرار رکھا۔
(3)
اہل ظاہر کا موقف ہے کہ مقتول کو معافی دینے کا کوئی حق نہیں بلکہ یہ حق اس کے وارثوں کے لیے ہے لیکن یہ موقف محل نظر ہے جیسا کہ حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے۔
بہرحال موت کے بعد قاتل کو خون معاف کیا جا سکتا ہے اور معافی کا حق مقتول کے ورثاء کو ہے۔
(فتح الباري: 263/12)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6883