مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ -- 0
34. مسنَد اَنَسِ بنِ مَالِك رَضِیَ اللَّه عَنه
0
حدیث نمبر: 14065
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ : أَنَّ أَبَا طَلْحَةَ مَاتَ لَهُ ابْنٌ، فَقَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ: لَا تُخْبِرُوا أَبَا طَلْحَةَ حَتَّى أَكُونَ أَنَا الَّذِي أُخْبِرُهُ، فَسَجَّتْ عَلَيْهِ، فَلَمَّا جَاءَ أَبُو طَلْحَةَ، وَضَعَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ طَعَامًا، فَأَكَلَ، ثُمَّ تَطَيَّبَتْ لَهُ فَأَصَابَ مِنْهَا، فَعَلِقَتْ بِغُلَامٍ، فَقَالَتْ: يَا أَبَا طَلْحَةَ، إِنَّ آلَ فُلَانٍ اسْتَعَارُوا مِنْ آلِ فُلَانٍ عَارِيَّةً، فَبَعَثُوا إِلَيْهِمْ: ابْعَثُوا إِلَيْنَا بِعَارِيَّتِنَا، فَأَبَوْا أَنْ يَرُدُّوهَا، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: لَيْسَ لَهُمْ ذَلِكَ، إِنَّ الْعَارِيَّةَ مُؤَدَّاةٌ إِلَى أَهْلِهَا، قَالَتْ: فَإِنَّ ابْنَكَ كَانَ عَارِيَّةً مِنَ اللَّهِ، وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ قَبَضَهُ، فَاسْتَرْجَعَ، قَالَ أَنَسٌ : فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، فَقَالَ:" بَارَكَ اللَّهُ لَهُمَا فِي لَيْلَتِهِمَا"، قَالَ: فَعَلِقَتْ بِغُلَامٍ فَوَلَدَتْ، فَأَرْسَلَتْ بِهِ مَعِي أُمُّ سُلَيْمٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَمَلْتُ تَمْرًا، فَأَتَيْتُ بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ عَبَاءَةٌ وَهُوَ يَهْنَأُ بَعِيرًا لَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ مَعَكَ تَمْرٌ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، فَأَخَذَ التَّمَرَاتِ، فَأَلْقَاهُنَّ فِي فِيهِ، فَلَاكَهُنَّ، ثُمَّ جَمَعَ لُعَابَهُ، ثُمَّ فَغَرَ فَاهُ، فَأَوْجَرَهُ إِيَّاهُ، فَجَعَلَ الصَّبِيُّ يَتَلَمَّظُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" حُبُّ الْأَنْصَارَ التَّمْرَ، فَحَنَّكَهُ، وَسَمَّاهُ: عَبْدَ اللَّهِ، فَمَا كَانَ فِي الْأَنْصَارِ شَابٌّ أَفْضَلَ مِنْهُ.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک بیٹا بیمار تھا، وہ فوت ہوگیا، ان کی زوجہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہ نے گھر والوں سے کہہ دیا کہ تم میں سے کوئی بھی ابوطلحہ کو ان کے بیٹے کی موت کی خبر نہ دے، چنانچہ جب حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ واپس آئے ان کے سامنے رات کا کھانا لا کر رکھا انہوں نے کھانا کھایا اور پانی پیا، پھر حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہ نے خوب اچھی طرح بناؤ سنگھار کیا، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ان سے خلوت کی، جب انہوں نے دیکھا کہ وہ اچھی طرح سیراب ہوچکے ہیں تو انہوں نے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے ابوطلحہ! دیکھیں تو سہی فلاں لوگوں نے عاریۃً کوئی چیز لی، اس سے فائدہ اٹھاتے رہے جب ان سے واپسی کا مطالبہ ہو، کیا وہ انکار کرسکتے ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں، انہوں نے کہا کہ پھر اپنے بیٹے پر صبر کیجئے۔ صبح ہوئی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ ذکر کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تم دونوں میاں بیوی کے لئے اس رات کو مبارک فرمائے، چنانچہ وہ امید سے ہوگئیں اور بالآخر ان کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا، انہوں نے مجھ سے کہا کہ انس! تم پہلے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤ، چنانچہ صبح کو میں اس بچے کو اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹوں کو قطران مل رہے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا شاید ام سلیم کے یہاں بچہ پیدا ہوا ہے، میں نے عرض کیا جی ہاں! اور اس بچے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں رکھ دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عجوہ کھجوریں منگوائیں، ایک کھجور لے کر اسے منہ میں چبا کر نرم کیا اور تھوک جمع کر کے اس کے منہ میں ٹپکا دیا جسے وہ چاٹنے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کھجور انصار کی محبوب چیز ہے اور اس کا نام عبداللہ رکھ دیا، انصار میں اس سے افضل کوئی جوان نہ تھا۔