صحيح البخاري
كِتَاب الدِّيَاتِ -- کتاب: دیتوں کے بیان میں
14. بَابُ الْقِصَاصِ بَيْنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ فِي الْجِرَاحَاتِ:
باب: مردوں اور عورتوں کے درمیان زخموں میں بھی قصاص لیا جائے گا۔
وَقَالَ أَهْلُ الْعِلْمِ: يُقْتَلُ الرَّجُلُ بِالْمَرْأَةِ، وَيُذْكَرُ عَنْ عُمَرَ: تُقَادُ الْمَرْأَةُ مِنَ الرَّجُلِ فِي كُلِّ عَمْدٍ يَبْلُغُ نَفْسَهُ فَمَا دُونَهَا مِنَ الْجِرَاحِ، وَبِهِ قَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَإِبْرَاهِيمُ وَأَبُو الزِّنَادِ، عَنْ أَصْحَابِهِ، وَجَرَحَتْ أُخْتُ الرُّبَيِّعِ إِنْسَانًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْقِصَاصُ.
اہل علم نے کہا ہے کہ مرد کو عورت کے بدلہ میں قتل کیا جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عورت سے مرد کے قتل مثل عمد یا اس سے کم دوسرے زخموں کا قصاص لیا جائے۔ یہی قول عمر بن عبدالعزیز، ابراہیم، ابوالزناد کا اپنے اساتذہ سے منقول ہے۔ اور ربیع کی بہن نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص کو زخمی کر دیا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا فیصلہ فرمایا تھا۔
حدیث نمبر: 6886
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيِّ بْنِ بَحْرٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" لَدَدْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ، فَقَالَ: لَا تُلِدُّونِي، فَقُلْنَا: كَرَاهِيَةُ الْمَرِيضِ لِلدَّوَاءِ، فَلَمَّا أَفَاقَ، قَالَ: لَا يَبْقَى أَحَدٌ مِنْكُمْ إِلَّا لُدَّ غَيْرَ الْعَبَّاسِ فَإِنَّهُ لَمْ يَشْهَدْكُمْ".
ہم سے عمر بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ میں (مرض الوفات کے موقع پر) آپ کی مرضی کے خلاف ہم نے دوا ڈالی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے حلق میں دوا نہ ڈالو لیکن ہم نے سمجھا کہ مریض ہونے کی وجہ سے دوا پینے سے نفرت کر رہے ہیں لیکن جب آپ کو ہوش ہوا تو فرمایا کہ تم جتنے لوگ گھر میں ہو سب کے حلق میں زبردستی دوا ڈالی جائے سوا عباس رضی اللہ عنہ کے کہ وہ اس وقت موجود نہیں تھے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6886  
6886. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم نے نبی ﷺ کی بیماری میں آپ کے منہ میں آپ کی مرضی کے خلاف دوائی ڈالی تو آپ ﷺ نے فرمایا: میرے حلق میں دوائی نہ ڈالو لیکن ہم نے خیال کیا کہ آپ بیمار ہونے کی وجہ سے دوائی کو پسند نہیں کر رہے۔ جب آپ کو افاقہ ہوا تو آپ نے فرمایا: تم جتنے لوگ گھر میں موجود ہو سب کے حلق میں ذبردستی دوا ڈالی جائے، سوائے عباس کے کیونکہ وہ اس وقت تمہارے ساتھ شامل نہیں تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6886]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ مرض وفات کا واقعہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روکنے کے باوجود تمام اہل خانہ نے آپ کے منہ میں زبردستی دوا ڈال دی تو آپ نے بدلے کے طور پر تمام اہل مجلس کے منہ میں دوائی ڈالنے کا حکم دیا۔
چونکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہما اس وقت وہاں موجود نہ تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس سزا سے الگ رکھا۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اس حدیث میں اشارہ ہے کہ اگر عورت کسی مرد کو کو زخمی کرتی ہے تو اس سے بھی بدلہ لیا جائے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں مرد اور عورتیں ہر قسم کے لوگ تھے، چنانچہ بعض روایات میں تصریح ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کے منہ میں بھی دوائی ڈالی گئی تھی، حالانکہ وہ روزے سے تھیں کیونکہ وہ بھی اس مجلس میں موجود تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمومی امر دیا تھا جس کی زد میں وہ بھی آگئیں۔
(فتح الباري: 268/12)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6886