مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ -- 0
35. مُسْنَدُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 14456
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: مَكَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ عَشْرَ سِنِينَ يَتْبَعُ النَّاسَ فِي مَنَازِلِهِمْ بعُكَاظٍ وَمَجَنَّةَ، وَفِي الْمَوَاسِمِ بِمِنًى، يَقُولُ:" مَنْ يُؤْوِينِي؟ مَنْ يَنْصُرُنِي؟ حَتَّى أُبَلِّغَ رِسَالَةَ رَبِّي، وَلَهُ الْجَنَّةُ" حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيَخْرُجُ مِنَ الْيَمَنِ أَوْ مِنْ مُضَرَ كَذَا قَالَ: فَيَأْتِيهِ قَوْمُهُ، فَيَقُولُونَ: احْذَرْ غُلَامَ قُرَيْشٍ، لَا يَفْتِنُكَ، وَيَمْشِي بَيْنَ رِجَالِهِمْ، وَهُمْ يُشِيرُونَ إِلَيْهِ بِالْأَصَابِعِ، حَتَّى بَعَثَنَا اللَّهُ إِلَيْهِ مِنْ يَثْرِبَ، فَآوَيْنَاهُ وَصَدَّقْنَاهُ، فَيَخْرُجُ الرَّجُلُ مِنَّا، فَيُؤْمِنُ بِهِ، وَيُقْرِئُهُ الْقُرْآنَ، فَيَنْقَلِبُ إِلَى أَهْلِهِ، فَيُسْلِمُونَ بِإِسْلَامِهِ، حَتَّى لَمْ يَبْقَ دَارٌ مِنْ دُورِ الْأَنْصَارِ إِلَّا وَفِيهَا رَهْطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يُظْهِرُونَ الْإِسْلَامَ، ثُمَّ ائْتَمَرُوا جَمِيعًا، فَقُلْنَا: حَتَّى مَتَى نَتْرُكُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُطْرَدُ فِي جِبَالِ مَكَّةَ وَيَخَافُ؟ فَرَحَلَ إِلَيْهِ مِنَّا سَبْعُونَ رَجُلًا، حَتَّى قَدِمُوا عَلَيْهِ فِي الْمَوْسِمِ، فَوَاعَدْنَاهُ شِعْبَ الْعَقَبَةِ، فَاجْتَمَعْنَا عَلَيْهِ مِنْ رَجُلٍ وَرَجُلَيْنِ، حَتَّى تَوَافَيْنَا، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نُبَايِعُكَ؟ قَالَ:" تُبَايِعُونِي عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي النَّشَاطِ وَالْكَسَلِ، وَالنَّفَقَةِ فِي الْعُسْرِ وَالْيُسْرِ، وَعَلَى الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَأَنْ تَقُولُوا فِي اللَّهِ، لَا تَخَافُونَ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ، وَعَلَى أَنْ تَنْصُرُونِي، فَتَمْنَعُونِي إِذَا قَدِمْتُ عَلَيْكُمْ مِمَّا تَمْنَعُونَ مِنْهُ أَنْفُسَكُمْ وَأَزْوَاجَكُمْ وَأَبْنَاءَكُمْ، وَلَكُمْ الْجَنَّةُ"، قَالَ: فَقُمْنَا إِلَيْهِ فَبَايَعْنَاهُ، وَأَخَذَ بِيَدِهِ أَسْعَدُ بْنُ زُرَارَةَ، وَهُوَ مِنْ أَصْغَرِهِمْ، فَقَالَ: رُوَيْدًا يَا أَهْلَ يَثْرِبَ، فَإِنَّا لَمْ نَضْرِبْ أَكْبَادَ الْإِبِلِ إِلَّا وَنَحْنُ نَعْلَمُ، أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّ إِخْرَاجَهُ الْيَوْمَ مُفَارَقَةُ الْعَرَبِ كَافَّةً، وَقَتْلُ خِيَارِكُمْ، وَأَنَّ تَعَضَّكُمْ السُّيُوفُ، فَإِمَّا أَنْتُمْ قَوْمٌ تَصْبِرُونَ عَلَى ذَلِكَ، وَأَجْرُكُمْ عَلَى اللَّهِ، وَإِمَّا أَنْتُمْ قَوْمٌ تَخَافُونَ مِنْ أَنْفُسِكُمْ جَبِينَةً، فَبَيِّنُوا ذَلِكَ، فَهُوَ عُذْرٌ لَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ، قَالُوا: أَمِطْ عَنَّا يَا أَسْعَدُ، فَوَاللَّهِ لَا نَدَعُ هَذِهِ الْبَيْعَةَ أَبَدًا، وَلَا نَسْلُبُهَا أَبَدًا، قَالَ: فَقُمْنَا إِلَيْهِ فَبَايَعْنَاهُ، فَأَخَذَ عَلَيْنَا وَشَرَطَ، وَيُعْطِينَا عَلَى ذَلِكَ الْجَنَّةَ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دس سال مکہ مکرمہ میں رہے اور عکاظ، مجنہ اور موسم حج میں میدان منیٰ میں لوگوں کے پاس ان کے ٹھکانوں پر جا جا کر ملتے تھے اور فرماتے تھے کہ مجھے اپنے یہاں کون ٹھکانہ دے گا؟ کون میری مدد کرے گا کہ میں اپنے رب کا پیغام پہنچا سکوں اور اسے جنت مل جائے؟ بعض اوقات ایک آدمی یمن سے آتا یا مصر سے تو ان کی قوم کے لوگ اس کے پاس آتے اور اس سے کہتے کہ قریش کے اس نوجوان سے بچ کر رہنا، کہیں یہ تمہیں گمراہ نہ کر دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کے خیموں کے پاس سے گزرتے تو وہ انگلیوں سے ان کی طرف اشارہ کرتے، حتی کہ اللہ نے ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یثرب سے اٹھا دیا اور ہم نے انہیں ٹھکانہ فراہم کیا اور ان کی تصدیق کی، چنانچہ ہم میں سے ایک آدمی نکلتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے قرآن پڑھاتے اور جب وہ واپس گھر پلٹ کر آتا تو اس کے اسلام کی برکت سے اس کے اہل خانہ بھی مسلمان ہو جاتے، حتی کہ انصار کا کوئی گھر ایسا باقی نہ بچا جس میں مسلمانوں کا ایک گروہ نہ ہو، یہ سب لوگ علانیہ اسلام کو ظاہر کرتے تھے۔ ایک دن سب لوگ مشورہ کے لئے اکٹھے ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم کب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں چھوڑے رکھیں گے کہ آپ کو مکہ کے پہاڑوں میں دھکے دیئے جاتے رہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوف کے عالم میں رہیں؟ چنانچہ ہم میں سے ستر آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ ہوئے اور ایام حج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے، ہم نے آپس میں ایک گھاٹی ملاقات کے لئے طے کی اور ایک ایک دو دو کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے، یہاں تک کہ جب ہم پورے ہو گئے، تو ہم نے عرض کی، یا رسول اللہ! ہم کس شرط پر آپ کی بیعت کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مجھ سے چستی اور سستی ہر حال میں بات سننے اور ماننے، تنگی اور آسانی اور ہر حال میں خرچ کرنے، امر بالمعروف نہی عن المنکر اور حق بات کہنے میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈرنے اور میری مدد کرنے اور اسی طرح میری حفاظت کرنے کی شرط پر بیعت کرو جس طرح تم اپنی، اپنی بیویوں اور بچوں کی حفاظت کرتے ہو اور تمہیں اس کے بدلے میں جنت ملے گی چنانچہ ہم نے کھڑے ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لی۔ سیدنا اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ جو سب سے چھوٹے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک پکڑ کر کہنے لگے: اے اہل یثرب! ٹھہرو، ہم لوگ اپنے اونٹوں کے جگر مارتے ہوئے یہاں اس لئے آئے ہیں کہ ہمیں اس بات کا یقین ہو جائے کہ یہ اللہ کے رسول ہیں (یہ سمجھ لو) کہ آج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں سے نکال کر لے جانا پورے عرب کی جدائیگی اختیار کرنا ہے، اپنے بہترین افراد کو قتل کروانا اور تلواریں کاٹنا ہے، اگر تم اس پر صبر کر سکو تو تمہارا اجر و ثواب اللہ کے ذمے ہے۔ اور اگر تمہیں اپنے متعلق ذرا سی بھی بزدلی کا اندیشہ ہو تو اسے واضح کر دو تاکہ وہ عند اللہ تمہارے لئے عذر شمار ہو جائے، اس پر تمام انصار نے کہا: اسعد! پیچھے ہٹو، بخدا! ہم بیعت کو کبھی نہیں چھوڑیں گے اور کبھی ختم نہیں کریں گے، چنانچہ اسی طرح ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت عطا فرمائے جانے کے وعدے اور شرائط پر ہم سے بیعت لے لی۔