صحيح البخاري
كِتَاب اسْتِتَابَةِ الْمُرْتَدِّينَ وَالْمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ -- کتاب: باغیوں اور مرتدوں سے توبہ کرانے کا بیان
4. بَابُ إِذَا عَرَّضَ الذِّمِّيُّ وَغَيْرُهُ بِسَبِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُصَرِّحْ نَحْوَ قَوْلِهِ السَّامُ عَلَيْكَ:
باب: اگر ذمی کافر یا کوئی اور اشارے کنائے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا کہے جیسے یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں (السلام علیکم کے بدلے) السام علیک کہا کرتے تھے۔
حدیث نمبر: 6928
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الْيَهُودَ إِذَا سَلَّمُوا عَلَى أَحَدِكُمْ إِنَّمَا يَقُولُونَ: سَامٌ عَلَيْكَ، فَقُلْ عَلَيْكَ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، انہوں نے سفیان بن عیینہ، اور امام مالک سے، ان دونوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، کہا میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ کہتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہودی لوگ جب تم مسلمانوں میں سے کسی کو سلام کرتے ہیں تو «سام عليك‏.‏» کہتے ہیں تم بھی جواب میں «عليك» کہا کرو۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 480  
´غیر مسلم کے سلام کا جواب`
«. . . 292- وبه: قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن اليهود إذا سلم عليكم أحدهم فإنما يقول: السام عليكم، فقل: عليك. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہودیوں میں سے کوئی جب تمہیں سلام کہتا ہے تو «السام عليكم» (تم پر موت ہو یعنی تم مر جاؤ) کہتا ہے پس تم جواب دو: «عليك» (تجھ پر) . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 480]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 6257، من حديث مالك، ومسلم 2164، من حديث عبدالله بن دينار به]
تفقه
➊ کفار کو السلام علیکم نہیں کہنا چاہئے۔ اگر وہ سلام کریں تو وعلیکم سے ان کو جواب دینا چاہئے۔
➋ یہود ونصاریٰ اور تمام کفار مسلمانوں کے پکے دشمن ہیں اور اس دشمنی میں وہ سب متفق ہیں۔
➌ سلام کا جواب دینا واجب اور ضروری ہے۔
➍ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اگر کوئی کافر صریح گستاخی کرے تو دوسرے دلائل کی رُو سے اُسے قتل کردیا جائے گا۔ دیکھئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مشہور کتاب: الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول۔‏‏‏‏ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
➎ ایک یمنی شخص نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نابینا ہونے کے بعد والے دور میں آپ کو سلام کہا:۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے بعد اس شخص نے کچھ کلمات کا اضافہ کیا تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سلام تو برکاتہ پر ختم ہوگیا ہے۔ [الموطأ 2/959 ح1855، وسنده صحيح]
➏ اگر کوئی شخص کسی کے خلاف سخت زبان استعمال کرے تو شرعی حدود کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سختی کے ساتھ اس کا جواب دیا جاسکتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 292   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6928  
6928. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہودی لوگ جب تم میں سے کسی کو سلام کرتے ہیں تو سام علیك تم پر موت ہو کہتے ہیں۔ تم جواب میں یہی کہہ دیا کرو: تم پر بھی یہی کچھ ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6928]
حدیث حاشیہ:
(1)
قوم یہود کی یہ گندگی اور بری فطرت تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی مسلمان کو سلام کہتے تو اپنے دل کی بھڑاس اس طرح نکالتے کہ ان الفاظ میں سلام کرتے:
تم پر موت یا ہلاکت ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا نوٹس اس طرح لیتے کہ ان کے الفاظ ہی ان کے منہ پر مار دیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی یہی تلقین فرمائی کہ ان کے متعلق بدزبانی کرنے کے بجائے ان کے اپنے الفاظ ہی انھیں واپس کر دیے جائیں۔
اس انداز سے ان کی بددعا خود ان کے لیے ہی موجب وبال اور باعث عذاب ہوگی۔
اگر وہ علانیہ طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کریں تو پھر انھیں قتل کر دیا جائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کعب بن اشرف اور ابو رافع یہودی کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔
(2)
دور حاضر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے بنا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین وتنقیص کرنے والوں کا بھی یہی حکم ہے اور یہ ناقابل معافی جرم ہے کیونکہ انھیں معاف کر دینے کا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے جواب موجود نہیں ہیں۔
ہم نے اس موضوع پر ایک مفصل فتویٰ لکھا تھا جو فتاویٰ اصحاب الحدیث کی دوسری جلد میں دیکھا جا سکتا ہے۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6928