مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ -- 0
35. مُسْنَدُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 14955
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ امْرَأَةً مِنَ الْيَهُودِ بِالْمَدِينَةِ وَلَدَتْ غُلَامًا مَمْسُوحَةٌ عَيْنُهُ، طَالِعَةٌ نَاتِئَةٌ، فَأَشْفَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكُونَ الدَّجَّالَ، فَوَجَدَهُ تَحْتَ قَطِيفَةٍ يُهَمْهِمُ، فَآذَنَتْهُ أُمُّهُ، فَقَالَتْ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، هَذَا أَبُو الْقَاسِمِ قَدْ جَاءَ، فَاخْرُجْ إِلَيْهِ، فَخَرَجَ مِنَ الْقَطِيفَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا لَهَا قَاتَلَهَا اللَّهُ، لَوْ تَرَكَتْهُ لَبَيَّنَ"، ثُمَّ قَالَ:" يَا ابْنَ صَائِدٍ، مَا تَرَى؟"، قَالَ: أَرَى حَقًّا، وَأَرَى بَاطِلًا، وَأَرَى عَرْشًا عَلَى الْمَاءِ، قَالَ: فَلُبِسَ عَلَيْهِ، فَقَالَ:" أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟"، فَقَالَ هُوَ: أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ:" آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ"، ثُمَّ خَرَجَ وَتَرَكَهُ، ثُمَّ أَتَاهُ مَرَّةً أُخْرَى، فَوَجَدَهُ فِي نَخْلٍ لَهُ يُهَمْهِمُ، فَآذَنَتْهُ أُمُّهُ، فَقَالَتْ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، هَذَا أَبُو الْقَاسِمِ قَدْ جَاءَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا لَهَا قَاتَلَهَا اللَّهُ، لَوْ تَرَكَتْهُ لَبَيَّنَ"، قَالَ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَطْمَعُ أَنْ يَسْمَعَ مِنْ كَلَامِهِ شَيْئًا، فَيَعْلَمُ هُوَ هُوَ أَمْ لَا، قَالَ:" يَا ابْنَ صَائِدٍ، مَا تَرَى؟"، قَالَ: أَرَى حَقًّا، وَأَرَى بَاطِلًا، وَأَرَى عَرْشًا عَلَى الْمَاءِ، قَالَ:" أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟"، قَالَ هُوَ: أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ"، فَلُبِسَ عَلَيْهِ، ثُمَّ خَرَجَ فَتَرَكَهُ، ثُمَّ جَاءَ فِي الثَّالِثَةِ أَوْ الرَّابِعَةِ، وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي نَفَرٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ، وَأَنَا مَعَهُ، قَالَ: فَبَادَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَيْدِينَا، وَرَجَا أَنْ يَسْمَعَ مِنْ كَلَامِهِ شَيْئًا، فَسَبَقَتْهُ أُمُّهُ إِلَيْهِ، فَقَالَتْ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، هَذَا أَبُو الْقَاسِمِ قَدْ جَاءَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا لَهَا قَاتَلَهَا اللَّهُ، لَوْ تَرَكَتْهُ لَبَيَّنَ"، فَقَالَ:" يَا ابْنَ صَائِدٍ، مَا تَرَى؟"، قَالَ: أَرَى حَقًّا، وَأَرَى بَاطِلًا، وَأَرَى عَرْشًا عَلَى الْمَاءِ، قَالَ:" أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟"، قَالَ: أَتَشْهَدُ أَنْتَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ"، فَلُبِسَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا ابْنَ صَائِدٍ، إِنَّا قَدْ خَبَّأْنَا لَكَ خَبِيئًا، فَمَا هُوَ؟ قَالَ: الدُّخُّ، الدُّخُّ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اخْسَأْ، اخْسَأْ"، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: ائْذَنْ لِي، فَأَقْتُلَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنْ يَكُنْ هُوَ فَلَسْتَ صَاحِبَهُ، إِنَّمَا صَاحِبُهُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ، وَإِنْ لَا يَكُنْ فَلَيْسَ لَكَ أَنْ تَقْتُلَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْعَهْدِ"، قَالَ: فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُشْفِقًا أَنَّهُ الدَّجَّالُ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک یہو دی عورت کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا جس کی ایک آنکھ پونچھی تو ہوئی تھی اور دوسری روشن ابھری ہوئی تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں یہ دجال نہ ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک چادر میں لیٹے ہوئے دیکھا کہ وہ کچھ گنگنارہا ہے لیکن اس کی ماں نے اسے بروقت مطلع کر دیا کہ عبداللہ یہ ابوقاسم آئے ہیں ان کے پاس آؤ چنانچہ وہ اپنی چادر سے نکل کر آیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس عورت کو کیا ہو گیا ہے اس پر اللہ کی مار ہواگر یہ اسے چھوڑ دیتی تو یہ اپنی حقیقت ضرور واضح کر دیتا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ اے ابن صائد تو کیا دیکھتا ہے اس نے کہا میں حق بھی دیکھتاہوں اور باطل بھی اور میں پانی پر ایک تخت دیکھتا ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اس پر معاملہ مشتبہ ہو گیا پھر پوچھا کہ کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اس نے پلٹ کو پوچھا کہ آپ اس بات کی گواہی دیتے ہیں میں اللہ کا رسول ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے چھوڑ کر چلے گئے۔ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور یہی حالات پیش آئے پھر تیسری مرتبہ یا چوتھی مرتبہ مہاجرین انصار کی ایک جماعت کے ساتھ جن میں سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر بھی تھے اور میں بھی تھا تشریف لائے اور یہی حالات پیش آئے البتہ آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اے ابن صائد ہم نے تیرے امتحان کے لئے اپنے ذہن میں ایک چیز چھپائی ہوئی ہے بتاوہ کیا ہے اس نے دخ، دخ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دور ہواس پر سیدنا عمر کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیجیے میں اسے قتل کر دوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ وہی ہوا تو اس کے اہل نہیں ہواس کے اہل سیدنا عیسیٰ ہیں اور اگر وہ نہیں ہے تو تمہیں کسی ذمی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی بہرحال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ یہ اندیشہ رہا کہ کہیں یہ دجال نہ ہو۔