صحيح البخاري
كِتَاب الْحِيَلِ -- کتاب: شرعی حیلوں کے بیان میں
12. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنِ احْتِيَالِ الْمَرْأَةِ مَعَ الزَّوْجِ وَالضَّرَائِرِ:
باب: عورت کا اپنے شوہر یا سوکنوں کے ساتھ حیلہ کرنے کی ممانعت۔
وَمَا نَزَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ.
‏‏‏‏ اور جو اس باب میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 6972
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ وَيُحِبُّ الْعَسَلَ، وَكَانَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ أَجَازَ عَلَى نِسَائِهِ فَيَدْنُو مِنْهُنَّ، فَدَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ، فَاحْتَبَسَ عِنْدَهَا أَكْثَرَ مِمَّا كَانَ يَحْتَبِسُ، فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ؟، فَقَالَ لِي: أَهْدَتْ لَهَا امْرَأَةٌ مِنْ قَوْمِهَا عُكَّةَ عَسَلٍ، فَسَقَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ شَرْبَةً، فَقُلْتُ: أَمَا وَاللَّهِ لَنَحْتَالَنَّ لَهُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَوْدَةَ، قُلْتُ: إِذَا دَخَلَ عَلَيْكِ فَإِنَّهُ سَيَدْنُو مِنْكِ، فَقُولِي لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ؟، فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لَا، فَقُولِي لَهُ: مَا هَذِهِ الرِّيحُ؟، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْتَدُّ عَلَيْهِ أَنْ يُوجَدَ مِنْهُ الرِّيحُ، فَإِنَّهُ سَيَقُولُ: سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ، فَقُولِي لَهُ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، وَسَأَقُولُ ذَلِكِ، وَقُولِيهِ أَنْتِ يَا صَفِيَّةُ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى سَوْدَةَ، قُلْتُ: تَقُولُ سَوْدَةُ: وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَقَدْ كِدْتُ أَنْ أُبَادِرَهُ بِالَّذِي قُلْتِ لِي وَإِنَّهُ لَعَلَى الْبَابِ فَرَقًا مِنْكِ، فَلَمَّا دَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ؟، قَالَ: لَا: قُلْتُ: فَمَا هَذِهِ الرِّيحُ؟، قَالَ: سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ، قُلْتُ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيَّ، قُلْتُ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ، وَدَخَلَ عَلَى صَفِيَّةَ، فَقَالَتْ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ، قَالَتْ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أَسْقِيكَ مِنْهُ؟، قَالَ: لَا حَاجَةَ لِي بِهِ، قَالَتْ: تَقُولُ سَوْدَةُ: سُبْحَانَ اللَّهِ، لَقَدْ حَرَمْنَاهُ، قَالَتْ: قُلْتُ لَهَا: اسْكُتِي".
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حلوہ (یعنی میٹھی چیز) اور شہد پسند کرتے تھے اور عصر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنی ازواج سے (ان میں سے کسی کے حجرہ میں جانے کے لیے) اجازت لیتے تھے اور ان کے پاس جاتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر گئے اور ان کے یہاں اس سے زیادہ دیر تک ٹھہرے رہے جتنی دیر تک ٹھہرنے کا آپ کا معمول تھا۔ میں نے اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی قوم کی ایک خاتون نے شہد کی ایک کپی انہیں ہدیہ کی تھی اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا شربت پلایا تھا۔ میں نے اس پر کہا کہ اب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک حیلہ کروں گی چنانچہ میں نے اس کا ذکر سودہ رضی اللہ عنہا سے کیا اور کہا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے یہاں آئیں تو آپ کے قریب بھی آئیں گے اس وقت تم آپ سے کہنا یا رسول اللہ! شاید آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ اس پر آپ جواب دیں گے کہ نہیں۔ تم کہنا کہ پھر یہ بو کس چیز کی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بہت ناگوار تھی کہ آپ کے جسم کے کسی حصہ سے بو آئے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جواب یہ دیں گے کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا تھا۔ اس پر کہنا کہ شہد کی مکھیوں نے غرفط کا رس چوسا ہو گا اور میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی بات کہوں گی اور صفیہ تم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہنا چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سودہ کے یہاں تشریف لے گئے تو ان کا بیان ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ تمہارے خوف سے قریب تھا کہ میں اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات جلدی میں کہہ دیتی جبکہ آپ دروازے ہی پر تھے۔ آخر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریب آئے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا پھر بو کیسی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا ہے میں نے کہا اس شہد کی مکھیوں نے غرفط کا رس چوسا ہو گا اور صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جب آپ تشریف لے گئے تو انہوں نے بھی یہی کہا۔ اس کے بعد جب حفصہ کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم گئے تو انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ شہد میں پھر آپ کو پلاؤں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی ضرورت نہیں۔ بیان کیا ہے کہ اس پر سودہ رضی اللہ عنہا بولیں۔ سبحان اللہ یہ ہم نے کیا کیا گویا شہد آپ پر حرام کر دیا، میں نے کہا چپ رہو۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5599  
´ باذق (انگور کے شیرہ کی ہلکی آنچ میں پکائی ہوئی شراب) کے بارے میں`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ، وَالْعَسَلَ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حلوا اور شہد کو دوست رکھتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَشْرِبَةِ: 5599]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5599 کا باب: «بَابُ الْبَاذَقِ، وَمَنْ نَهَى عَنْ كُلِّ مُسْكِرٍ مِنَ الأَشْرِبَةِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں «الباذق» کا ذکر فرمایا ہے، جس کے معنی انگور کے شیرے کی ہلکی آنچ میں پکائی ہوئی شراب ہے، جبکہ تحت الباب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث نقل فرمائی ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کا باب سے مناسبت واضح ہے جبکہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا تعلق باب سے مشکل ہے کیونکہ باب میں «الباذق» کے الفاظ ہیں اور حدیث میں حلوا اور شہد کے۔

غور کرنے سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا پہلو اجاگر ہوتا ہے، وہ اس جہت سے کہ انگور کا شیرہ جب اتنا پکایا جائے کہ وہ حلوا ہو جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حلوہ کو پسند فرمایا کرتے تھے لیکن اس میں اس بات کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ اس میں مطلق نشہ نہ ہو۔

چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«ووجه إيراده فى هذا الباب أن الذى يحل من المطبوخ هو ما كان فى معنى الحلواء، والذي يجوز شربه من عصير العنب بغير طبخ هو ما كان فى معنى العسل، فانهم كانوا يمزجونه بالماء ويشربونه من ساعته. والله اعلم» [فتح الباري لابن حجر: 57/11]
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس باب میں اس حدیث کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پکانے سے وہی حلال ہو گا جو حلوہ کے معنی میں ہو اور وہ عصیر عنب سے جس کا شرب بغیر پکانے کے حلال ہے وہ شہد کے معنی میں ہے، کیونکہ وہ اس سے پانی ملا کر اسی وقت (یعنی تازہ تازہ) پی لیا کرتے تھے۔

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت اس طرح ہے کہ عصیر المطبوخ جبکہ اس میں نشہ نہ ہو، وہ حلال ہے۔ [ارشاد الساري: 500/9]
یعنی جس طرح حلوہ شہد میں ڈال کر پکایا جاتا ہے پانی کے ساتھ ملا کر جو کہ بڑا لذید اور پاکیزہ ہوتا ہے، بعین اسی طرح اگر انگور کا شیرہ پکایا جائے اور وہ حلوہ بن جائے (شراب کی صفات، اس میں نہ پائی جائیں جیسا کہ نشہ وغیرہ) تو وہ حلوہ حلال ہو گا، یعنی سکر بننے سے قبل اس کو حلوہ بنا کر کھانا درست ہے، یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں مناسبت ہوگی۔ «والله اعلم»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 140   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3323  
´حلوا (مٹھائی) کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حلوا (شیرینی) اور شہد پسند فرماتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3323]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حلواء اور حلویٰ سے بعض علماء نے انسان کی بنائی میٹھی چیز (مٹھائی)
اور بعض نے ہر میٹھی چیز مراد لی ہے پھل ہو یا دوسری چیز۔

(2)
پسند ہونے کامطلب یہ ہے کہ جب پیش کی جاتی تو رغبت سےتناول فرماتے۔
یہ مطلب نہیں کہ اسے طلب فرماتے۔

(3)
شہد ایک قدرتی غذا ہے جو بے شمار فوائد کی حامل ہے۔
اور اس میں دوسری مٹھاس (چینی وغیرہ)
کےمضر اثرات نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3323   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 910  
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدنا عروہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اے میری بہن کے لخت جگر (بھانجے)! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کی باری کی تقسیم میں کسی کو کسی پر فوقیت و فضیلت نہیں دیتے تھے۔ ہمارے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا اور کم ہی ایسا کوئی دن ہو گا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آتے جاتے نہ ہوں اور ہر بیوی کے پاس جاتے ضرور مگر کسی کو چھوتے تک نہ تھے۔ پھر اس بیوی کے پاس پہنچ جاتے جس کی باری ہوتی اور رات اس کے پاس بسر فرماتے۔ احمد و ابوداؤد اور یہ الفاظ ابوداؤد کے ہیں۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔ اور مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر ادا فرما کر اپنی ساری بیویوں کے ہاں تشریف لے جاتے پھر ان سے قرب بھی حاصل کرتے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 910»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، النكاح، باب في القسم بين النساء، حديث:2135، وأحمد:6 /107، والحاكم:2 /186، وصححه، ووافقه الذهبي، وحديث عائشة: كان إذا صلي العصر....، أخرجه مسلم، الطلاق، حديث:1474، والبخاري، النكاح، حديث:5216.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر روز اپنی ازواج مطہرات کی قیام گاہوں میں حالات معلوم کرنے کی غرض سے چکر ضرور لگاتے اور باہمی محبت و پیار کا اظہار کرتے۔
2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر بیوی کی قیام گاہ الگ ہونی چاہیے‘ اس سے پردہ داری رہتی ہے۔
3.کم عمر بچوں کو پیار سے بلانا بھی ثابت ہو رہا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھانجے کو یَاابْنَ أُخْتِي کہہ کر بلایا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 910   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6972  
6972. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ میٹھی چیز اور شہد کو بہت پسند کرتے تھے۔ آپ ﷺ جب عصر کی نماز پڑھ لیتے تو اپنی بیویوں کے پاس تشریف لے جاتے اور ان کے قریب ہوتے۔ ایک مرتبہ آپ سیدہ حفصہ‬ ؓ ک‬ے گھر گئے، اور ان کے ہاں اس سے زیادہ قیام فرمایا جتنی دیر قیام کا معمول تھا۔ میں نے اس کے متعلق پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ اس کی قوم سے ایک عورت نے انہیں پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ اس کی قوم سے ایک عورت نے انہیں ایک کپی شہد بطور ہدیہ بھیجا ہے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اس کا شربت پلایا تھا۔ میں نے (اپنے دل میں) کہا: اللہ کی قسم! اب میں آپ کے متعلق ضرور کوئی حیلہ کروں گی، چنانچہ میں نے اس کا ذکر سیدہ سودہ‬ ؓ س‬ے کیا اور انہیں کہا: جب تمہارے پاس آپ ﷺ تشریف لائیں تو آپ کے قریب بھی آئیں گے۔ اس وقت تم نے یہ کہنا ہوگا: اللہ کے رسول! (کیا) شاید آپ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6972]
حدیث حاشیہ:
کہیں آنحضرت سن نہ لیں یا ہماری یہ بات ظاہر نہ ہو جائے۔
مگر اللہ پاک نے قرآن مجید میں اس ساری بات چیت کا پردہ چاک کر دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ حیلہ سازی کرنا بہرحال جائز نہیں ہے کاش کتاب الحیل کے مصنفین اس حقیقت پر غور کر سکتے؟ ازواح النبی بلاشبہ امہات المؤمنین ہیں مگر عورت ذات تھیں جن میں کمزوریوں کا ہونا فطری بات ہے۔
غلطی کا ان کو احساس ہوا، یہی ان کی مغفرت کی دلیل ہے۔
اللہ ان سب پر ہماری طرف سے سلام اور اپنی رحمت نازل فرمائے۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6972   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6972  
6972. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ میٹھی چیز اور شہد کو بہت پسند کرتے تھے۔ آپ ﷺ جب عصر کی نماز پڑھ لیتے تو اپنی بیویوں کے پاس تشریف لے جاتے اور ان کے قریب ہوتے۔ ایک مرتبہ آپ سیدہ حفصہ‬ ؓ ک‬ے گھر گئے، اور ان کے ہاں اس سے زیادہ قیام فرمایا جتنی دیر قیام کا معمول تھا۔ میں نے اس کے متعلق پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ اس کی قوم سے ایک عورت نے انہیں پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ اس کی قوم سے ایک عورت نے انہیں ایک کپی شہد بطور ہدیہ بھیجا ہے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اس کا شربت پلایا تھا۔ میں نے (اپنے دل میں) کہا: اللہ کی قسم! اب میں آپ کے متعلق ضرور کوئی حیلہ کروں گی، چنانچہ میں نے اس کا ذکر سیدہ سودہ‬ ؓ س‬ے کیا اور انہیں کہا: جب تمہارے پاس آپ ﷺ تشریف لائیں تو آپ کے قریب بھی آئیں گے۔ اس وقت تم نے یہ کہنا ہوگا: اللہ کے رسول! (کیا) شاید آپ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6972]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں شہد کا شربت پیا تھا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ مل کر یہ پرو گرام بنایا تھا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4912)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ جن دو بیویوں نے آپس میں مشورہ کیا تھا وہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔
اگر اُم المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر شہد پیا ہوتا جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے تو وہ مظاہرہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ کیسے شریک ہو سکتیں تھیں؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ الگ واقعے ہیں۔
(فتح الباري: 430/12)

اس حدیث میں وضاحت نہیں ہے کہ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا نازل ہوا تھا۔
چنانچہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے واقعے میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت سورہ تحریم نازل فرمائی۔
(صحیح البخاري، الطلاق، حدیث: 5267)
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حیلہ سازی قطعاً جائز نہیں خواہ یہ کام ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین ہی کیوں نہ کریں بلا شبہ آپ امہات المومنین ہیں مگر عورت میں فطری کمزوریاں ہوتی ہیں نیز ان میں غیرت کا عنصر کچھ زیادہ ہی پایا جاتا ہے جب انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انھوں نے اس کی تلافی کر دی۔
یہی ان کی مغفرت کے لیے کافی ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ حیلہ سازی کوئی اچھی چیز نہیں انسان کو اس سے ہر حال میں بچنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6972