صحيح البخاري
كِتَاب الْحِيَلِ -- کتاب: شرعی حیلوں کے بیان میں
14. بَابٌ في الْهِبَةِ وَالشُّفْعَةِ:
باب: ہبہ پھیر لینے یا شفعہ کا حق ساقط کرنے کے لیے حیلہ کرنا مکروہ ہے۔
حدیث نمبر: 6976
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" إِنَّمَا جَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشُّفْعَةَ فِي كُلِّ مَا لَمْ يُقْسَمْ، فَإِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ وَصُرِّفَتِ الطُّرُقُ، فَلَا شُفْعَةَ"، وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: الشُّفْعَةُ لِلْجِوَارِ، ثُمَّ عَمَدَ إِلَى مَا شَدَّدَهُ فَأَبْطَلَهُ، وَقَالَ: إِنِ اشْتَرَى دَارًا فَخَافَ أَنْ يَأْخُذَ الْجَارُ بِالشُّفْعَةِ، فَاشْتَرَى سَهْمًا مِنْ مِائَةِ سَهْمٍ ثُمَّ اشْتَرَى الْبَاقِيَ، وَكَانَ لِلْجَارِ الشُّفْعَةُ فِي السَّهْمِ الْأَوَّلِ، وَلَا شُفْعَةَ لَهُ فِي بَاقِي الدَّارِ وَلَهُ أَنْ يَحْتَالَ فِي ذَلِكَ.
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ کا حکم ہر اس چیز میں دیا تھا جو تقسیم نہ ہو سکتی ہو۔ پس جب حد بندی ہو جائے اور راستے الگ الگ کر دئیے جائیں تو پھر شفعہ نہیں۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ شفعہ کا حق پڑوسی کو بھی ہوتا ہے پھر خود ہی اپنی بات کو غلط قرار دیا اور کہا کہ اگر کسی نے کوئی گھر خریدا اور اسے خطرہ ہے کہ اس کا پڑوسی حق شفعہ کی بنا پر اس سے گھر لے لے گا تو اس نے اس کے سو حصے کر کے ایک حصہ اس میں سے پہلے خرید لیا اور باقی حصے بعد میں خریدے تو ایسی صورت میں پہلے حصے میں تو پڑوسی کو شفعہ کا حق ہو گا۔ گھر کے باقی حصوں میں اسے یہ حق نہیں ہو گا اور اس کے لیے جائز ہے کہ یہ حیلہ کرے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2499  
´جائیداد کی حد بندی کے بعد حق شفعہ نہیں ہے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ ہر اس جائیداد میں ٹھہرایا ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو، اور جب حد بندی ہو جائے اور راستے جدا ہو جائیں تو اب شفعہ نہیں ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الشفعة/حدیث: 2499]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مشترک چیز میں اگر ایک شریک اپنا حصہ فروخت کرنا چاہے تو پہلے اپنے دوسرے شریکوں کو بتائے تاکہ اگر وہ خریدنا چاہیں تو خرید لیں۔

(2)
یہ حق زمین یا مکان میں بھی ہے اوردوسری کسی بھی مشترک چیز میں بھی۔

(3)
جب مشترک چیز تقسیم کر لی جائے اورمکان یا زمین کو تقسیم کرکے ہرشخص کا حصہ مقرر ہو جائے کہ یہاں تک فلاں کا حصہ ہے اوراس سے آگے فلاں کا حصہ ہے توشراکت ختم ہوجاتی ہے صرف ہمسائیگی باقی رہ جاتی ہے اس صورت میں جو شخص پہلے شریک تھا وہ ہمسائیگی کی بنیاد پرشفعے کا دعوی نہیں کر سکتا۔

(4)
بعض احادیث میں جو پڑوسی کے حق شفعہ کا ذکر ہے تو اس سے مراد مطلق پڑوسی نہیں بلکہ صرف وہ پڑوسی مراد ہے جو راستے یا زمین وغیرہ میں شریک ہو، اگر ایسا نہ ہوتو پھر پڑوسی بھی شفعے کا حق دار نہیں ہے اس لیے کہ جب یہ فرما دیا گیا کہ حد بندی اورراستے الگ الگ ہو جانےکے بعد حق شفعہ نہیں تو پھر محض پڑوسی ہونا پڑوسی کےحق شفعہ کا جواز نہیں بن سکتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2499   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1369  
´غائب (جو شخص موجود نہ ہو) کے شفعہ کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑوسی اپنے پڑوسی (ساجھی) کے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے، جب دونوں کا راستہ ایک ہو تو اس کا انتظار کیا جائے گا ۱؎ اگرچہ وہ موجود نہ ہو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1369]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حدیث اس بات پردلیل ہے کہ غیرحاضرشخص کا شفعہ باطل نہیں ہو تا،
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شفعہ کے لیے مجرد ہمسائیگی ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے راستے میں اشتراک بھی ضروری ہے،
اس کی تائید ذیل کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ جب حدبندی ہوجائے اورراستے جدا جدا ہو جائیں تو پھر شفعہ کا استحقاق نہیں رہتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1369   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6976  
6976. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے شفعہ کا حق ہر اس چیز میں دیا ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو۔ جب حد بندی ہو جائے اور راستے الگ الگ کر دیے جائیں تو پھر شفعہ نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود بعض لوگوں نے كہا ہے: شفعہ کا حق پڑاسی اور ہمسائے کو بھی ہوتا ہے، پھر جس چیز (ہمسائے کے حق شفعہ) کو مضبوط کیا تھا اسے خود ہی باطل قرار دیا اور کہا کہ اگر کسی نے کوئی گھر خریدا، پھر اسے خطرہ محسوس ہوا کہ اس کا پڑوسی شفعے کی بنیاد پر اس سے گھر لے لے گا تو اسے چاہیے کہ وہ مکان کے سو حصوں میں سے پہلے ایک حصہ خرید لے، پھر باقی حصے خرید کرے۔ ایسی صورت میں پڑوسی کو صرف پہلے خرید کردہ حصے میں شفعے کا حق ہوگا۔ مکان کے باقی حصوں میں اسے حق شفعہ حاصل نہیں ہوگا۔ خریدار اس کا مکان کے متعلق اس قسم کا حیلہ کر سکتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6976]
حدیث حاشیہ:
کیونکہ خریدار اس گھر کا شریک ہے اور شریک کا حق ہمسایہ پر مقدم ہے اور ان لوگوں نے خریدا ر کے لیے اس قسم کا حیلہ جائز رکھا ہے حالانکہ اس میں ایک مسلمان کا حق تلف کرنا ہے اور ان فقہاء پر تعجب ہے جو ایسے حیلے کرنا جائز رکھتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6976   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6976  
6976. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے شفعہ کا حق ہر اس چیز میں دیا ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو۔ جب حد بندی ہو جائے اور راستے الگ الگ کر دیے جائیں تو پھر شفعہ نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود بعض لوگوں نے كہا ہے: شفعہ کا حق پڑاسی اور ہمسائے کو بھی ہوتا ہے، پھر جس چیز (ہمسائے کے حق شفعہ) کو مضبوط کیا تھا اسے خود ہی باطل قرار دیا اور کہا کہ اگر کسی نے کوئی گھر خریدا، پھر اسے خطرہ محسوس ہوا کہ اس کا پڑوسی شفعے کی بنیاد پر اس سے گھر لے لے گا تو اسے چاہیے کہ وہ مکان کے سو حصوں میں سے پہلے ایک حصہ خرید لے، پھر باقی حصے خرید کرے۔ ایسی صورت میں پڑوسی کو صرف پہلے خرید کردہ حصے میں شفعے کا حق ہوگا۔ مکان کے باقی حصوں میں اسے حق شفعہ حاصل نہیں ہوگا۔ خریدار اس کا مکان کے متعلق اس قسم کا حیلہ کر سکتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6976]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شفعے کے سلسلے میں حیلے سازوں کے اقوال میں تناقض ثابت کرنے کے لیے چار صورتیں ذکر کی ہیں جن میں پہلی صورت یہاں بیان کی ہے فرماتے ہیں کہ انھوں نے پہلے پڑوس کا حق شفعہ ثابت کیا پھر خودہی اس حق کو برباد کرنے کا حیلہ بتایا کہ خریدار بیچنے والے سے اس گھر کے سو حصوں میں سے صرف ایک مشترک حصہ خرید لے جس کی بنا پر وہ خریدے ہوئے گھر میں بیچنے والے کا شریک ہو جائے گا۔
اب پڑوسی اس ایک حصے کو معمولی اور حقیر خیال کر کے شفعہ نہیں کرے گا پھر چونکہ خریدار اس گھر میں شریک بن چکا ہے اور شریک کا حق پڑوسی کے حق سے مقدم ہوتا ہے اس لیے اب وہ گھر کے باقی ننانوے حصے بھی خرید لے اب پڑوسی کے لیے ان باقی حصوں میں حق شفعہ نہیں رہے گا۔
اس انداز سے حیلہ سازوں نے پڑوسی کا حق شفعہ ثابت کرنے کے بعد اسے باطل کر دیا کہ نہ تو وہ پہلے میں شفعہ کر سکتا ہے کیونکہ وہ تو انتہائی تھوڑا ہے اور نہ باقی حصوں میں شفعہ کر سکے گا کیونکہ شریک کا حق اس سے مقدم ہے۔
اسی تناقص کو ثابت کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث پیش کی ہے۔

شریعت نے پڑوسی کو شفعے کا حق اس لیے دیا ہے تاکہ وہ آنے والے مکین کی اذیت رسانی سے محفوظ رہے کیونکہ فروخت کرنے والے نے تو گھر بیچ کر چلے جانا ہے اب فروخت کرنے والے نے یہ حیلہ کر کے اپنے پڑوسی کو نقصان پہنچایا ہے ہمیں ایسے لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو ایسے حیلے جائز قرار دیتے ہیں جنھیں عمل میں لانے سے ایک مسلمان اپنے حق سے محروم ہو جاتا ہے۔

ہمارے رجحان کے مطابق کسی کا حق مارنے کے لیے حیلہ کرنا حرام اور ناجائز ہے جس کی تفصیل ہم پہلے بیان آئے ہیں۔

واضح رہے کہ ہمارے نزدیک صرف ہمسائیگی سے حق شفعہ ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے مشترک راستہ ہونا ضروری ہے جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
ہمسایہ اپنے ہمسائے کا شفعے میں زیادہ حق دار ہے۔
شفعےکی وجہ سے اس کا انتظار کیا جائے گا اگرچہ غائب ہو بشرطیکہ دونوں کا راستہ ایک ہو۔
(سنن أبي داود، البیوع، حدیث3518)
اس موقف کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ جب حد بندی ہو جائے اور راستے جدا جدا ہو جائیں تو پھر شفعے کا حق ختم ہو جاتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث سے اسی موقف کی طرف اشارہ کیا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6976