صحيح البخاري
كِتَاب الْحِيَلِ -- کتاب: شرعی حیلوں کے بیان میں
14. بَابٌ في الْهِبَةِ وَالشُّفْعَةِ:
باب: ہبہ پھیر لینے یا شفعہ کا حق ساقط کرنے کے لیے حیلہ کرنا مکروہ ہے۔
حدیث نمبر: 6977
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ الشَّرِيدِ، قَالَ جَاءَ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى مَنْكِبِي، فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ إِلَى سَعْدٍ، فَقَالَ أَبُو رَافِعٍ، لِلْمِسْوَرِ: أَلَا تَأْمُرُ هَذَا أَنْ يَشْتَرِيَ مِنِّي بَيْتِي الَّذِي فِي دَارِي؟، فَقَالَ: لَا أَزِيدُهُ عَلَى أَرْبَعِ مِائَةٍ إِمَّا مُقَطَّعَةٍ وَإِمَّا مُنَجَّمَةٍ، قَالَ: أُعْطِيتُ خَمْسَ مِائَةٍ نَقْدًا فَمَنَعْتُهُ، وَلَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْجَارُ أَحَقُّ بِصَقَبِهِ، مَا بِعْتُكَهُ، أَوْ قَالَ: مَا أَعْطَيْتُكَهُ"، قُلْتُ لِسُفْيَانَ: إِنَّ مَعْمَرًا لَمْ يَقُلْ هَكَذَا، قَالَ: لَكِنَّهُ قَالَ لِي هَكَذَا، وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: إِذَا أَرَادَ أَنْ يَبِيعَ الشُّفْعَةَ، فَلَهُ أَنْ يَحْتَالَ حَتَّى يُبْطِلَ الشُّفْعَةَ، فَيَهَبَ الْبَائِعُ لِلْمُشْتَرِي الدَّارَ، وَيَحُدُّهَا وَيَدْفَعُهَا إِلَيْهِ وَيُعَوِّضُهُ الْمُشْتَرِي أَلْفَ دِرْهَمٍ، فَلَا يَكُونُ لِلشَّفِيعِ فِيهَا شُفْعَةٌ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابراہیم بن میسرہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے عمرو بن شرید سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے میرے مونڈھے پر اپنا ہاتھ رکھا پھر میں ان کے ساتھ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے یہاں گیا تو ابورافع نے اس پر کہا کہ اس کا چار سو سے زیادہ میں نہیں دے سکتا اور وہ بھی قسطوں میں دوں گا۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ مجھے تو اس کے پانچ سو نقد مل رہے تھے اور میں نے انکار کر دیا۔ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا کہ پڑوسی زیادہ مستحق ہے تو میں اسے تمہیں نہ بیچتا۔ علی بن عبداللہ مدینی نے کہا میں نے سفیان بن عیینہ سے اس پر پوچھا کہ معمر نے اس طرح نہیں بیان کیا ہے۔ سفیان نے کہا کہ لیکن مجھ سے تو ابراہیم بن میسرہ نے یہ حدیث اسی طرح نقل کی۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص چاہے کہ شفیع کو حق شفعہ نہ دے تو اسے حیلہ کرنے کی اجازت ہے اور حیلہ یہ ہے کہ جائیداد کا مالک خریدار کو وہ جائیداد ہبہ کر دے پھر خریدار یعنی موہوب لہ اس ہبہ کے معاوضہ میں مالک جائیداد کو ہزار درہم مثلاً ہبہ کر دے اس صورت میں شفیع کو شفعہ کا حق نہ رہے گا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6977  
6977. حضرت عمرو بن شرید سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت مسور بن مخرمہ ؓ آئے اور انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، پھر میں ان کے ساتھ حضرت سعد بن مالک کے پاس گیا۔ (وہاں) ابو رافع نے حضرت مسور سے کہا: کیا تم حضرت سعد ؓ سے میری سفارش نہیں کرتے کہ وہ میرا مکان خرید لیں جو میری حویلی میں ہے؟ انہوں نے کہا: میں تو چار سو درہم سے زیادہ نہیں دوں گا اور وہ بھی قسطوں میں ادا کروں گا۔ ابو رافع نے کہا: مجھے تو اس کے پانچ سو نقد مل رہے تھے لیکن میں نے انکار کر دیا۔ اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا نہ ہوتا: ہمسایہ اپنے قرب کے باعث زیادہ حق دار ہے۔ تو میں تو تمہیں یہ مکان فروخت نہ کرتا یا تجھے نہ دیتا۔ (راوی کہتا ہے کہ) میں نے سفیان بن عینیہ سے پوچھا کہ معمر نے تو اس طرح بیان نہیں کیا۔ سفیان نے کہا: لیکن مجھے تو ابراہیم بن میسرہ نے یہ حدیث اسی طرح نقل کی ہے۔ بعض لوگ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6977]
حدیث حاشیہ:
کیونکہ شفعہ بیع میں ہوتا ہے نہ کہ ہبہ میں۔
ہم کہتے ہیں کہ ہبہ بالعوض بھی بیع کے حکم میں ہے تو شفیع کا حق شفعہ قائم رہنا چاہیے اور ایسا حیلہ کرنا بالکل نا جائز ہے۔
اس میں مالک کی حق تلفی کا ارادہ کرنا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ایسے ہبہ سے جس میں کسی کا نقصان نظر آرہا ہے بیچیں اور ایسے ناجائز حیلوں سے دور رہیں اور اس حدیث پر عمل کریں جو بالکل واضح اور صاف ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6977   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6977  
6977. حضرت عمرو بن شرید سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت مسور بن مخرمہ ؓ آئے اور انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، پھر میں ان کے ساتھ حضرت سعد بن مالک کے پاس گیا۔ (وہاں) ابو رافع نے حضرت مسور سے کہا: کیا تم حضرت سعد ؓ سے میری سفارش نہیں کرتے کہ وہ میرا مکان خرید لیں جو میری حویلی میں ہے؟ انہوں نے کہا: میں تو چار سو درہم سے زیادہ نہیں دوں گا اور وہ بھی قسطوں میں ادا کروں گا۔ ابو رافع نے کہا: مجھے تو اس کے پانچ سو نقد مل رہے تھے لیکن میں نے انکار کر دیا۔ اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا نہ ہوتا: ہمسایہ اپنے قرب کے باعث زیادہ حق دار ہے۔ تو میں تو تمہیں یہ مکان فروخت نہ کرتا یا تجھے نہ دیتا۔ (راوی کہتا ہے کہ) میں نے سفیان بن عینیہ سے پوچھا کہ معمر نے تو اس طرح بیان نہیں کیا۔ سفیان نے کہا: لیکن مجھے تو ابراہیم بن میسرہ نے یہ حدیث اسی طرح نقل کی ہے۔ بعض لوگ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6977]
حدیث حاشیہ:

حق شفعہ کو باطل کرنے کے لیے حیلہ سازوں کی دوسری صورت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
اس صورت میں ابطال حق شفعہ کے لیے شرط یہ ہےکہ معاوضے کو مشروط نہ کیا جائے۔
اگر ایسا کیا گیا تو شفعہ کرنے والا اس کی قیمت ادا کر کے اس جائیداد کو حاصل کر سکتا ہے اس صورت میں حق شفعہ اس لیے ساقط ہو جاتا ہےکہ ہبہ معاوضہ نہیں ہے اس لیے یہ وراثت کے مشابہ ہے اور وراثت میں حق شفعہ نہیں ہوتا۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اس امر کی وضاحت کرنا ہے کہ جو حق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے لیے ثابت کیا اسے کسی قسم کے حیلے یا دوسرے طریقے سے ساقط نہیں کیا جا سکتا۔
(فتح الباري: 345/12)
چونکہ اس حیلے کے ذریعے سے حق شفعہ کو ختم کرنا مقصود ہے نیز اس میں شفعہ کرنے والے کے نقصان کا اندیشہ ہے اس لیے ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے البتہ حیلہ ساز کہتے ہیں کہ شفعہ خریدوفروخت میں ہوتا ہے ہبہ کے مال میں شفعےکی گنجائش نہیں ہوتی لیکن ان حضرات کو معلوم ہونا چاہیے کہ کسی خاص فرد کو ہبہ کرنا بھی خرید وفروخت کے حکم میں ہے۔
اس اعتبار سے بھی شفعہ کرنے والے کا حق قائم رہنا چاہیے۔
اس قسم کا حیلہ کرنا ناجائز ہے کیونکہ مالک اس میں دوسرے کی حق تلفی کا ارادہ کیے ہوتا ہے۔

مذکورہ صورت درحقیقت خرید وفروخت ہی ہےصرف اس پر ہے کا لیبل لگا دیا گیا ہے ہمیں چاہیے کہ اس قسم کا ہبہ لینے اور دینے سے بچیں جس سے کسی دوسرے کو نقصان مقصود ہو۔
بہر حال ایسے ناجائز حیلے کرنا مومن کی شان کے خلاف ہیں۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6977