صحيح البخاري
كِتَاب الْحِيَلِ -- کتاب: شرعی حیلوں کے بیان میں
15. بَابُ احْتِيَالِ الْعَامِلِ لِيُهْدَى لَهُ:
باب: عامل کا تحفہ لینے کے لیے حیلہ کرنا۔
حدیث نمبر: 6979
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: اسْتَعْمَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا عَلَى صَدَقَاتِ بَنِي سُلَيْمٍ يُدْعَى ابْنَ الْلَّتَبِيَّةِ، فَلَمَّا جَاءَ حَاسَبَهُ، قَالَ: هَذَا مَالُكُمْ وَهَذَا هَدِيَّةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَهَلَّا جَلَسْتَ فِي بَيْتِ أَبِيكَ وَأُمِّكَ حَتَّى تَأْتِيَكَ هَدِيَّتُكَ إِنْ كُنْتَ صَادِقًا، ثُمَّ خَطَبَنَا، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَسْتَعْمِلُ الرَّجُلَ مِنْكُمْ عَلَى الْعَمَلِ مِمَّا وَلَّانِي اللَّهُ، فَيَأْتِي فَيَقُولُ: هَذَا مَالُكُمْ وَهَذَا هَدِيَّةٌ أُهْدِيَتْ لِي، أَفَلَا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ حَتَّى تَأْتِيَهُ هَدِيَّتُهُ، وَاللَّهِ لَا يَأْخُذُ أَحَدٌ مِنْكُمْ شَيْئًا بِغَيْرِ حَقِّهِ إِلَّا لَقِيَ اللَّهَ يَحْمِلُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَلَأَعْرِفَنَّ أَحَدًا مِنْكُمْ لَقِيَ اللَّهَ يَحْمِلُ بَعِيرًا لَهُ رُغَاءٌ، أَوْ بَقَرَةً لَهَا خُوَارٌ، أَوْ شَاةً تَيْعَرُ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَهُ حَتَّى رُئِيَ بَيَاضُ إِبْطِهِ، يَقُولُ: اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ بَصْرَ عَيْنِي وَسَمْعَ أُذُنِي".
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام نے ‘ ان سے ان کے والد عروہ نے اور ان سے ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو بنی سلیم کے صدقات کی وصولی کے لیے عامل بنایا ان کا نام ابن اللتیبہ تھا پھر جب یہ عامل واپس آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا حساب لیا ‘ اس نے سرکاری مال علیحدہ کیا اور کچھ مال کی نسبت کہنے لگا کہ یہ (مجھے) تحفہ میں ملا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ پھر کیوں نہ تم اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھے رہے اگر تم سچے ہو تو وہیں یہ تحفہ تمہارے پاس آ جاتا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا، امابعد! میں تم میں سے کسی ایک کو اس کام پر عامل بناتا ہوں جس کا اللہ نے مجھے والی بنایا ہے پھر وہ شخص آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تمہارا مال اور یہ تحفہ ہے جو مجھے دیا گیا تھا۔ اسے اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھا رہنا چاہئیے تھا تاکہ اس کا تحفہ وہیں پہنچ جاتا۔ اللہ کی قسم! تم میں سے جو بھی حق کے سوا کوئی چیز لے گا وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس چیز کو اٹھائے ہوئے ہو گا بلکہ میں تم میں ہر اس شخص کو پہچان لوں گا جو اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اونٹ اٹھائے ہو گا جو بلبلا رہا ہو گا یا گائے اٹھائے ہو گا جو اپنی آواز نکال رہی ہو گی یا بکری اٹھائے ہو گا جو اپنی آواز نکال رہی ہو گی۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اٹھایا یہاں تک کہ آپ کے بغل کی سفیدی دکھائی دینے لگی اور فرمایا، اے اللہ کیا میں نے پہنچا دیا۔ یہ فرماتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں سے سنا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2946  
´ملازمین کو ہدیہ لینا کیسا ہے؟`
ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ازد کے ایک شخص کو جسے ابن لتبیہ کہا جاتا تھا زکاۃ کی وصولی کے لیے عامل مقرر کیا (ابن سرح کی روایت میں ابن اتبیہ ہے) جب وہ (وصول کر کے) آیا تو کہنے لگا: یہ مال تو تمہارے لیے ہے (یعنی مسلمانوں کا) اور یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: عامل کا کیا معاملہ ہے؟ کہ ہم اسے (وصولی کے لیے) بھیجیں اور وہ (زکاۃ کا مال لے کر) آئے اور پھر یہ کہے: یہ مال تمہارے لیے ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے، کیوں نہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2946]
فوائد ومسائل:
حکومت کا منصب دار ہوتے ہوئے متعینہ حق سے زیادہ لینا خواہ لوگ اپنی مرضی سے کیوں نہ دیں۔
اور اسے ہدیہ بتایئں تو وہ بیت المال کا حق ہے۔
اور قومی امانت ہے۔
اسے اپنے ذاتی تصرف میں لانا جائز ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2946   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6979  
6979. حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو بنو سلیم کے صدقات وصول کرنے پر عامل بنایا جسے ابن قبیہ کہا جاتا تھا۔ وہ صدقات لے کر واپس آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے حساب کتاب لیا۔ اس نے کہا: یہ تمہارا مال ہے اور یہ (میرا) ہدیہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تو سچا ہے تو اپنے ماں باپ کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا، وہیں یہ تحائف تیرے پاس آ جاتے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا، اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: اما بعد! میں تم میں سے کسی کو اس کام پر عامل بناتا ہوں جو اللہ تعالٰی نے میرے سپرد کیا ہے، پھر وہ شخص میرے پاس آ کر کہتا ہے: یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے۔ وہ اپنے والدین کے گھر کیوں نہیں بیٹھا رہا تاکہ وہیں اسے ہدایا پہنچ جائیں؟ اللہ کی قسم! تم میں سے جو بھی حق کے بغیر کوئی چیز لے گا وہ اللہ تعالٰی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6979]
حدیث حاشیہ:
عاملین کے لیے جو اسلامی حکومت کی طرف سے سرکاری اموال کی تحصیل کے لیے مقرر ہوتے ہیں کوئی حیلہ ایسا نہیں کہ وہ لوگوں سے تحفہ تحائف بھی وصول کر سکیں وہ جو کچھ بھی لیں گے وہ سب حکومت اسلامی کے بیت المال ہی کا حق ہوگا سفرائے مدارس کو بھی جو مشاہرہ پر کام کرتے ہیں یہ حدیث ذہن نشین رکھنی چاہیے۔
وباللہ التوفیق۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6979   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6979  
6979. حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو بنو سلیم کے صدقات وصول کرنے پر عامل بنایا جسے ابن قبیہ کہا جاتا تھا۔ وہ صدقات لے کر واپس آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے حساب کتاب لیا۔ اس نے کہا: یہ تمہارا مال ہے اور یہ (میرا) ہدیہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تو سچا ہے تو اپنے ماں باپ کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا، وہیں یہ تحائف تیرے پاس آ جاتے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا، اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: اما بعد! میں تم میں سے کسی کو اس کام پر عامل بناتا ہوں جو اللہ تعالٰی نے میرے سپرد کیا ہے، پھر وہ شخص میرے پاس آ کر کہتا ہے: یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے۔ وہ اپنے والدین کے گھر کیوں نہیں بیٹھا رہا تاکہ وہیں اسے ہدایا پہنچ جائیں؟ اللہ کی قسم! تم میں سے جو بھی حق کے بغیر کوئی چیز لے گا وہ اللہ تعالٰی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6979]
حدیث حاشیہ:

صحیح البخاری کے کچھ عنوان مستقل ہیں اور کچھ ضمنی حیثیت رکھتے ہیں مذکورہ عنوان بھی مستقل نہیں بلکہ نتیجہ اور تکملہ ہے چونکہ تیسری صورت حق شفعہ ختم کرنے کے لیے خریدی ہوئی جائیداد چھوٹے بیٹے کو ہبہ کر دینے کی صورت میں تھی اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان اورپیش کردہ حدیث سے ہدیے کی حدود و قیود بیان کی ہیں ہدایا کا سبب اس کی ذاتی صلاحیت ہونی چاہیے۔
اگر اس کے علاوہ کسی وجہ سے تحائف ملتے ہیں تو وہ تحائف نہیں ہوں گے جیسا کہ عامل کو سفارت کی وجہ سے تحفے ملے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر تنبیہ فرمائی کہ سر کاری عہدے کو تحائف و ہدایا وصول کرنے کے لیے بطور حیلہ استعمال نہ کیا جائے۔

چونکہ سابقہ صورت میں چھوٹے بیٹے کو مکان ہبہ کرنے کا جو حیلہ بتایا گیا تھا وہ بھی اسی نوعیت کا تھا اس لیے اس قسم کا ہدیہ حق شفعہ کے لیے رکاوٹ کا باعث نہیں ہوگا۔
شارحین میں سے کسی نے اس امر کی طرف اشارہ تک نہیں کیا۔
هذا مما فتح الله علي بمنه وكرمه والحمد لله أولا و آخرا وهو خير الفاتحين
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6979