صحيح البخاري
كِتَاب التَّعْبِيرِ -- کتاب: خوابوں کی تعبیر کے بیان میں
3. بَابُ الرُّؤْيَا مِنَ اللَّهِ:
باب: اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔
حدیث نمبر: 6984
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا قَتَادَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ مِنَ اللَّهِ، وَالْحُلْمُ مِنَ الشَّيْطَانِ".
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ نے جو سعید کے بیٹے ہیں ‘ کہا کہ میں نے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ کہا کہ میں نے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اچھے) خواب اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور برے خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6986  
´اچھا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے`
«. . . عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ مِنَ اللَّهِ، وَالْحُلْمُ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا حَلَمَ فَلْيَتَعَوَّذْ مِنْهُ، وَلْيَبْصُقْ عَنْ شِمَالِهِ، فَإِنَّهَا لَا تَضُرُّهُ . . .»
. . . ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے پس اگر کوئی برا خواب دیکھے تو اسے اس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئیے اور بائیں طرف تھوکنا چاہئیے یہ خواب اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا [صحيح البخاري/كِتَاب التَّعْبِيرِ: 6986]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6986 کا باب: «بَابُ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ:»

باب اورحدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب نیک خواب کا نبوت کے چھیالیس حصوں میں ایک حصہ ہے، اس پر مقرر فرمایا ہے، جبکہ تحت الباب جو حدیث سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی درج فرمائی ہے اس میں نبوت کے چھیالیس حصوں کا کوئی ذکر نہیں ہے، اسی وجہ سے علامہ اسماعیلی اور امام زرکشی نے باب پر اعتراض وارد کیا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
«و قد اعترضه الاسماعيلى فقال: ليس هذا الحديث من هذا الباب فى شيئي.»
یعنی اسماعیلی نے باب پر اعتراض وارد کیا ہے کہ جو حدیث تحت الباب امام بخاری رحمہ اللہ نے نقل فرمائی ہے، اس کا کچھ بھی باب سے تعلق نہیں ہے۔
علامہ زرکشی کہتے ہیں:
«إدخاله فى هذا الباب لا وجه له بل هو ملحق بالذي قبله.» [فتح الباري لابن حجر: 320/13]
اس باب کے تحت جو حدیث پیش فرمائی ہے اس کا تعلق اس باب سے نہیں بلکہ اس سے قبل باب کے ساتھ ہے۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ ان دونوں بزرگوں کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے رقمطراز ہیں:
«قلت و قد وقع ذالك فى رواية النسفي كما أشرت إليه، و يجاب عن صنيع الأكثر بأن وجه دخوله فى هذه الترجمة الإشارة إلى أن الرؤيا الصالحة إنما كانت جزءًا من أجزاء النبوة لكونها من الله تعالي بخلاف التى من الشيطان فإنها ليست من أجزاء النبوة، و أشار البخاري مع ذالك إلى ما وقع فى بعض الطرق . . . . . عن أبى قتادة فى هذا الحديث من الزيادة و رؤيا المؤمن جزء من ستة و أربعين جزءًا من النبوة.» [فتح الباري لابن حجر: 320/13]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں: نسفی کے نسخے میں ایسا ہی ہے، اکثر کو اس صنع کے متعلق جواب دیا گیا ہے کہ اس باب میں اس حدیث کو ذکر کرنے کا یہ اشارہ ہے کہ رویائے صالحہ اس لیے نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزء ہے کیوں کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے (الہام) ہیں، بخلاف ان خوابوں کے جو شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں اور وہ نبوت کے جزء میں سے نہیں ہوتے، اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے جو بعض طرق سے بطریق (حدیث عبداللہ بن یحیی بن ابی کثیر . . . . . عن ابی قتادۃ) سے مروی ہے جس میں یہ زیادتی ہے کہ مومن کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں کا ایک حصہ ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی ان گزارشات سے باب اور حدیث میں مناسبت کی بہترین توجیہ سامنے آئی، آپ کا مقصد یہ ہے کہ جو مومن کا نیک خواب ہو گا وہی نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہو گا، اور جو شیطان کی طرف سے ہو گا وہ نبوت کے چھالیس حصوں میں سے کوئی حصہ نہ ہو گا، پس یہ بتلانا مقصود ہے امام بخاری رحمہ اللہ کا۔
محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
«وجه دخول هذا الحديث فى هذا الباب الإشارة إلى أن الرؤيا إنما كانت جزءا من أجزاء النبوة لكونها من الله تعالي بخلاف التى من الشيطان فإنها ليست من أجزاء النبوة.» [الابواب والتراجم: 651/6]
یعنی اس حدیث کا تعلق اس باب سے یوں ہے کہ اس میں اشارہ ہے کہ جو خواب اللہ تعالی کی طرف سے ہو گا وہ نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہو گا، اور جو شیطان کی طرف سے ہو گا تو وہ اس کے خلاف ہو گا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 275   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6984  
6984. حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: سچے خواب اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور برے خواب شیطان کی طرف سے دکھائے جاتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6984]
حدیث حاشیہ:
شیطان انسان کا بہر حال دشمن ہے وہ خواب میں بھی ڈراتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6984   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6984  
6984. حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: سچے خواب اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور برے خواب شیطان کی طرف سے دکھائے جاتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6984]
حدیث حاشیہ:

انسانی خواب، خواہ وحی الٰہی کا نتیجہ ہوں یا اچھے سیرت وکردار کی وجہ سے ہوں یا ان کے پس منظر میں ذاتی رجحانات اور کاروباری مصروفیات ہوں یا انسانی مزاج کا اتار چڑھاؤ اور اخلاط کی کمی بیشی ان کی وجہ ہو یا توہمات اور لاشعوری احساسات کا نتیجہ ہوں بہرحال اس کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سونے والا کچھ دیکھتا ضرورہے، خواہ وہ خواب سچا ہو یا چھوٹا اچھا ہو یا براء سے پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے قائم کردہ عنوان میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے، البتہ خوابوں کی تکریم اوراحترام کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر انھیں اپنی طرف منسوب کیا ہے۔
چونکہ بُرے خواب شیطان کی دخل اندازی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
وہ ان کے ذریعے سے خوفزدہ اور پریشان کرتا ہے، اس لیے ایسے خوابوں کو حدیث میں شیطان کی طرف منسوب کیا گیا ہے لیکن خلقت کے اعتبار سے تمام خواب اللہ تعالیٰ ہی پیدا کرتا ہے اس میں کسی دوسرے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے تاہم اچھے خواب انسان کی راست بازی اور سچائی کی دلیل ہوتے ہیں اور بُرے خواب دیکھنے والا عام طور پر جھوٹا اورمکار انسان ہوتا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6984