مسند احمد
مسنَد المَكِّیِّینَ -- 0
139. حَدِیث التَّنوخِیِّ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّه عَلَیهِ وَسَلَّمَ
0
حدیث نمبر: 15655
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي رَاشِدٍ ، قَالَ: لَقِيتُ التَّنُوخِيَّ , رَسُولَ هِرَقْلَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِمْصَ، وَكَانَ جَارًا لِي شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ بَلَغَ الْفَنَدَ أَوْ قَرُبَ، فَقُلْتُ: أَلَا تُخْبِرُنِي عَنْ رِسَالَةِ هِرَقْلَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرِسَالَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هِرَقْلَ؟ فَقَالَ بَلَى، قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبُوكَ، فَبَعَثَ دِحْيَةَ الْكَلْبِيَّ إِلَى هِرَقْلَ، فَلَمَّا أَنْ جَاءَهُ كِتَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا قِسِّيسِي الرُّومِ وَبَطَارِقَتَهَا، ثُمَّ أَغْلَقَ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمْ بَابًا، فَقَالَ: قَدْ نَزَلَ هَذَا الرَّجُلُ حَيْثُ رَأَيْتُمْ، وَقَدْ أَرْسَلَ إِلَيَّ يَدْعُونِي إِلَى ثَلَاثِ خِصَالٍ , يَدْعُونِي إِلَى: أَنْ أَتَّبِعَهُ عَلَى دِينِهِ، أَوْ عَلَى أَنْ نُعْطِيَهُ مَالَنَا عَلَى أَرْضِنَا، وَالْأَرْضُ أَرْضُنَا، أَوْ نُلْقِيَ إِلَيْهِ الْحَرْبَ , وَاللَّهِ لَقَدْ عَرَفْتُمْ فِيمَا تَقْرَءُونَ مِنَ الْكُتُبِ لَيَأْخُذَنَّ مَا تَحْتَ قَدَمَيَّ، فَهَلُمَّ نَتَّبِعْهُ عَلَى دِينِهِ، أَوْ نُعْطِيهِ مَالَنَا عَلَى أَرْضِنَا , فَنَخَرُوا نَخْرَةَ رَجُلٍ وَاحِدٍ حَتَّى خَرَجُوا مِنْ بَرَانِسِهِمْ، وَقَالُوا: تَدْعُونَا إِلَى أَنْ نَدَعَ النَّصْرَانِيَّةَ، أَوْ نَكُونَ عَبِيدًا لِأَعْرَابِيٍّ جَاءَ مِنَ الْحِجَازِ! فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّهُمْ إِنْ خَرَجُوا مِنْ عِنْدِهِ، أَفْسَدُوا عَلَيْهِ الرُّومَ رَفَأَهُمْ وَلَمْ يَكَدْ، وَقَالَ: إِنَّمَا قُلْتُ ذَلِكَ لَكُمْ لِأَعْلَمَ صَلَابَتَكُمْ عَلَى أَمْرِكُمْ، ثُمَّ دَعَا رَجُلًا مِنْ عَرَبِ تُجِيبَ كَانَ عَلَى نَصَارَى الْعَرَبِ، فَقَالَ: ادْعُ لِي رَجُلًا حَافِظًا لِلْحَدِيثِ، عَرَبِيَّ اللِّسَانِ، أَبْعَثْهُ إِلَى هَذَا الرَّجُلِ بِجَوَابِ كِتَابِهِ، فَجَاءَ بِي، فَدَفَعَ إِلَيَّ هِرَقْلُ كِتَابًا، فَقَالَ: اذْهَبْ بِكِتَابِي إِلَى هَذَا الرَّجُلِ، فَمَا ضَيَّعْتُ مِنْ حَدِيثِهِ , فَاحْفَظْ لِي مِنْهُ ثَلَاثَ خِصَالٍ انْظُرْ هَلْ يَذْكُرُ صَحِيفَتَهُ الَّتِي كَتَبَ إِلَيَّ بِشَيْءٍ، وَانْظُرْ إِذَا قَرَأَ كِتَابِي فَهَلْ يَذْكُرُ اللَّيْلَ، وَانْظُرْ فِي ظَهْرِهِ هَلْ بِهِ شَيْءٌ يَرِيبُكَ؟ فَانْطَلَقْتُ بِكِتَابِهِ حَتَّى جِئْتُ تَبُوكَ، فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ أَصْحَابِهِ مُحْتَبِيًا عَلَى الْمَاءِ، فَقُلْتُ: أَيْنَ صَاحِبُكُمْ؟ قِيلَ: هَا هُوَ ذَا، فَأَقْبَلْتُ أَمْشِي حَتَّى جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَنَاوَلْتُهُ كِتَابِي، فَوَضَعَهُ فِي حَجْرِهِ، ثُمَّ قَالَ:" مِمَّنْ أَنْتَ؟" فَقُلْتُ: أَنَا أَحَدُ تَنُوخَ، قَالَ:" هَلْ لَكَ فِي الْإِسْلَامِ الْحَنِيفِيَّةِ مِلَّةِ أَبِيكَ إِبْرَاهِيمَ؟" قُلْتُ: إِنِّي رَسُولُ قَوْمٍ، وَعَلَى دِينِ قَوْمٍ، لَا أَرْجِعُ عَنْهُ حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْهِمْ , فَضَحِكَ، وَقَالَ:" إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ سورة القصص آية 56 , يَا أَخَا تَنُوخَ، إِنِّي كَتَبْتُ بِكِتَابٍ إِلَى كِسْرَى فَمَزَّقَهُ، وَاللَّهُ مُمَزِّقُهُ وَمُمَزِّقٌ مُلْكَهُ، وَكَتَبْتُ إِلَى النَّجَاشِيِّ بِصَحِيفَةٍ فَخَرَقَهَا، وَاللَّهُ مُخْرِقُهُ وَمُخْرِقٌ مُلْكَهُ، وَكَتَبْتُ إِلَى صَاحِبِكَ بِصَحِيفَةٍ فَأَمْسَكَهَا، فَلَنْ يَزَالَ النَّاسُ يَجِدُونَ مِنْهُ بَأْسًا مَا دَامَ فِي الْعَيْشِ خَيْرٌ" , قُلْتُ: هَذِهِ إِحْدَى الثَّلَاثَةِ الَّتِي أَوْصَانِي بِهَا صَاحِبِي، وَأَخَذْتُ سَهْمًا مِنْ جَعْبَتِي، فَكَتَبْتُهَا فِي جِلْدِ سَيْفِي، ثُمَّ إِنَّهُ نَاوَلَ الصَّحِيفَةَ رَجُلًا عَنْ يَسَارِهِ , قُلْتُ: مَنْ صَاحِبُ كِتَابِكُمْ الَّذِي يُقْرَأُ لَكُمْ؟ قَالُوا: مُعَاوِيَةُ , فَإِذَا فِي كِتَابِ صَاحِبِي تَدْعُونِي إِلَى جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ، فَأَيْنَ النَّارُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سُبْحَانَ اللَّهِ أَيْنَ اللَّيْلُ إِذَا جَاءَ النَّهَارُ؟" قَالَ: فَأَخَذْتُ سَهْمًا مِنْ جَعْبَتِي، فَكَتَبْتُهُ فِي جِلْدِ سَيْفِي، فَلَمَّا أَنْ فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ كِتَابِي، قَالَ:" إِنَّ لَكَ حَقًّا، وَإِنَّكَ رَسُولٌ، فَلَوْ وُجِدَتْ عِنْدَنَا جَائِزَةٌ جَوَّزْنَاكَ بِهَا، إِنَّا سَفْرٌ مُرْمِلُونَ" قَالَ: فَنَادَاهُ رَجُلٌ مِنْ طَائِفَةِ النَّاسِ، قَالَ: أَنَا أُجَوِّزُهُ، فَفَتَحَ رَحْلَهُ , فَإِذَا هُوَ يَأْتِي بِحُلَّةٍ صَفُورِيَّةٍ، فَوَضَعَهَا فِي حَجْرِي، قُلْتُ: مَنْ صَاحِبُ الْجَائِزَةِ؟ قِيلَ لِي: عُثْمَانُ , ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّكُمْ يُنْزِلُ هَذَا الرَّجُلَ"؟ فَقَالَ: فَتًى مِنَ الْأَنْصَارِ أَنَا، فَقَامَ الْأَنْصَارِيُّ، وَقُمْتُ مَعَهُ، حَتَّى إِذَا خَرَجْتُ مِنْ طَائِفَةِ الْمَجْلِسِ، نَادَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ:" تَعَالَ يَا أَخَا تَنُوخَ" فَأَقْبَلْتُ أَهْوِي إِلَيْهِ، حَتَّى كُنْتُ قَائِمًا فِي مَجْلِسِي الَّذِي كُنْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَحَلَّ حَبْوَتَهُ عَنْ ظَهْرِهِ، وَقَالَ:" هَاهُنَا , امْضِ لِمَا أُمِرْتَ لَهُ" فَجُلْتُ فِي ظَهْرِهِ، فَإِذَا أَنَا بِخَاتَمٍ فِي مَوْضِعِ غُضُونِ الْكَتِفِ مِثْلِ الحَجْمَةِ الضَّخْمَةِ.
سعید بن ابی راشد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حمص میں میری ملاقات تنوخی سے ہوئی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہرقل کے ایلچی بن کر آئے تھے وہ میرے پڑوسی تھے انتہائی بوڑھے ہو چکے تھے اور سٹھیا جانے کی عمر تک پہنچ گئے تھے میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ہرقل کے خط اور ہرقل کے نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کے بارے میں کچھ بتاتے کیوں نہیں انہوں نے کہا کیوں نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے تشریف لائے ہوئے تھے آپ نے سیدنا دحیہ کلبی کو ہرقل کے پاس بھیجا جب ہرقل کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک خط پہنچا تو اس نے رومی پادری اور سرداروں کو جمع کیا اور کمرے کا دروازہ بند کر لیا اور ان سے کہنے لگا کہ یہ آدمی میرے پاس آیا ہے جیسا کہ تم نے دیکھ ہی لیا ہے مجھے جو خط بھیجا گیا ہے اس میں مجھے تین میں سے کسی ایک صورت کو قبول کرنے کی دعوت دی گئی ہے یا تو میں ان کے دین کی پیروی کر وں یا انہیں زمین پر مال کی صورت میں ٹیکس ادا کر وں اور زمین ہمارے پاس ہی رہے یا پھر ان سے جنگ کر وں اللہ کی قسم آپ جو لوگ کتابیں پڑھتے ہوان کی روشنی میں آپ جانتے ہو کہ وہ میرے قدموں کے نیچے کی جگہ بھی حاصل کر لیں گے تو کیوں نہ ہم ان کی دین کی پیروی کر یں یا اپنی زمین کا مال ٹیکس کی صورت میں دے دیا کر یں۔ یہ سن کر ان سب کے نرخروں سے ایک جیسی آواز نکلنے لگی کہ حتی کہ انہوں نے اپنی ٹوپیاں اتار دیں اور کہنے لگے کہ کیا آپ ہمیں عیسائیت چھوڑنے کی دعوت دے رہے ہو یا ہم کسی دیہاتی جو حجاز سے آیا ہے غلام بن جائیں جب ہرقل نے دیکھا کہ اگر یہ لوگ اس کے پاس سے اسی حال میں چلے گئے تو وہ پورے روم میں فساد بڑپا کر دیں گے تو اس نے فورا پینترا بدل کر کہا میں نے تو یہ بات محض اس لئے کہی تھی کہ اپنے دین پر تمہارا جماؤ اور مضبوطی دیکھ سکوں۔ پھر اس نے عرب تجیب کے ایک آدمی کو جو نصاری عرب پر امیر تھا بلایا اور کہا کہ میر پاس ایسے آدمی کو بلا کر لاؤ جو حافظہ کا قوی ہواور عربی زبان جانتا ہو تاکہ میں اس سے اس شخص کی طرف اس کے خط کا جواب دوں وہ مجھے بلا لایا ہرقل نے اپنا خط میرے حوالے کر دیا اور کہنے لگا کہ میرا یہ خط اس شخص کے پاس لے جاؤ اگر اس کی ساری باتیں تم یاد نہ رکھ سکو تو کم از کم تین چیزیں ضرور یاد رکھ لینا یہ دیکھنا کہ وہ میری طرف بھیجے ہوئے اپنے خط کا کوئی ذکر کرتے ہی یا نہیں یہ دیکھنا کہ جب وہ میرا خط پڑھتے ہیں تورات کا ذکر کرتے ہیں یا نہیں اور ان کی پشت پر دیکھنا تمہیں کوئی عجیب چیز دکھائی دیتی ہے یا نہیں میں ہرقل کا خط لے کر روانہ ہوا اور تبوک پہنچا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے درمیان پانی کے قریبی علاقے میں اپنی ٹانگوں کے گرد ہاتھوں سے حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے میں نے لوگوں سے پوچھا کہ تمہارے ساتھی کہاں ہیں انہوں نے مجھے اشارہ کر دیا میں چلتا ہوا آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا انہیں خط پکڑا دیا جسے انہوں نے اپنی گود میں رکھ لیا اور مجھ سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کہاں سے ہے میں نے کہا میں ایک تنوخی آدمی ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تمہیں ملت حنیفیہ اسلام جو تمہارے باپ ابراہیم کی ملت ہے میں کوئی رغبت محسوس ہو تی ہے میں نے کہا کہ ایک قوم کا قاصد ہوں ایک قوم کے دین پر ہوں میں جب تک ان کہ پاس لوٹ نہ جاؤں اس دین سے برگشتہ نہیں ہو سکتا اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا کر یہ آیت پڑھنے لگے جسے آپ چاہیں اس ہدایت نہیں دے سکتے لیکن جسے اللہ چاہے اسے ہدایت دے سکتا ہے وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو زیادہ جانتی ہے اے تنوخی بھائی میں نے ایک خط کسری کی طرف لکھا تھا اس نے اسے ٹکڑے ٹکر ے کر دیئے اللہ اسے اور اس کی حکومت کو بھی ٹکڑے ٹکر ے کر دے گا میں نے نجاشی کی طرف بھی خط لکھا تھا اس نے اسے پھاڑ دیا اللہ اسے اور اس کی حکومت کو بھی تور پھوڑ دے گا میں نے تمہارے بادشاہ کی طرف بھی خط لکھا تھا لیکن اس نے اسے محفوظ کر لیا جب تک زندگی میں کوئی خیر رہے گی لوگوں پر اس کا رعب دبدبہ باقی رہے گا میں نے اپنے دل میں سوچا کہ یہ تین میں سے پہلی بات ہے جس کی مجھے بادشاہ نے وصیت کی تھی چنانچہ میں نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکالا اور اسے اپنی تلوار کی جلد پر یہ بات لکھ لی۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ خط اپنے بائیں جانب بیٹھے ہوئے ایک آدمی کو دیا میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ خط پڑھنے والے صاحب کون ہیں لوگوں نے بتایا کہ سیدنا امیر معاویہ ہیں بہرحال ہمارے بادشاہ کے خط میں لکھا ہوا تھا کہ آپ مجھے جنت کی دعوت دیتے ہیں جس کی چوڑائی زمین آسمان کے برابر ہے اور جو متقیوں کے لئے تیار کی گئی ہے تو جہنم کہاں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ جب دن آتا ہے تو رات کہاں جاتی ہے میں نے اپنے ترکش سے ایک ت