صحيح البخاري
كِتَاب التَّعْبِيرِ -- کتاب: خوابوں کی تعبیر کے بیان میں
34. بَابُ إِذَا أَعْطَى فَضْلَهُ غَيْرَهُ فِي النَّوْمِ:
باب: جب کسی نے اپنا بچا ہوا دودھ خواب میں کسی اور کو دیا۔
حدیث نمبر: 7027
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ أُتِيتُ بِقَدَحِ لَبَنٍ فَشَرِبْتُ مِنْهُ حَتَّى إِنِّي لَأَرَى الرِّيَّ يَجْرِي، ثُمَّ أَعْطَيْتُ فَضْلَهُ عُمَرَ، قَالُوا: فَمَا أَوَّلْتَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: الْعِلْمُ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں حمزہ بن عبداللہ بن عمر نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ میں سویا ہوا تھا کہ دودھ کا ایک پیالہ میرے پاس لایا گیا اور اس میں سے اتنا پیا کہ سیرابی کو میں نے ہر رگ و پے میں پایا۔ پھر میں نے اپنا بچا ہوا دودھ عمر کو دے دیا۔ لوگوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ نے اس کی تعبیر کیا کی؟ فرمایا کہ علم اس کی تعبیر ہے۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 82  
´علم کی فضیلت`
«. . . أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ، أُتِيتُ بِقَدَحِ لَبَنٍ فَشَرِبْتُ حَتَّى إِنِّي لَأَرَى الرِّيَّ يَخْرُجُ فِي أَظْفَارِي، ثُمَّ أَعْطَيْتُ فَضْلِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالُوا: فَمَا أَوَّلْتَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: الْعِلْمَ . . .»
. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں سو رہا تھا (اسی حالت میں) مجھے دودھ کا ایک پیالہ دیا گیا۔ میں نے (خوب اچھی طرح) پی لیا۔ حتیٰ کہ میں نے دیکھا کہ تازگی میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے۔ پھر میں نے اپنا بچا ہوا (دودھ) عمر بن الخطاب کو دے دیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 82]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
بظاہر حدیث میں علم کی کوئی فضیلت وارد ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہی لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا «فضل العلم» یعنی علم کی فضیلت۔۔۔
تو باب اور حدیث میں کچھ اس طرح سے مناسبت ہو گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بچا ہوا دودھ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا اور دودھ سے مراد یہاں علم ہے اور یہ علم نبوت ہے، لہٰذا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچا ہوا دودھ عطا فرمایا اس میں نبوت کا علم تھا اور یہ فضیلت علم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے نصیب فرمائی۔

◈ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«قلت لأنه عبر عن العلم بأنه فضلة النبى صلى الله عليه وسلم ونصيب مما اتاه الله وناهيك له فضلا، انه جزء من النبوة.» [المتواري على ابواب البخاري ص63]
حدیث مبارکہ میں فضیلت کا اثبات بایں طور پر موجود ہے (جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا ہے) کہ اس میں علم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضل (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچا ہوا دودھ) اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا تھا اس کے حصہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہی فضیلت کے لیے بہت ہے (کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کا بچا ہوا دودھ پیا)۔

◈ علامہ بدر الدین بن جماعہ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«وجه مناسبة الحديث للباب: انه اعطاه فضله، وفضيلة النبى صلى الله عليه وسلم فضيلة علمية و شرف و قد فسرها بالعلم . . .» [مناسبات تراجم البخاري، ص36]
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اپنا بچا ہوا دودھ عطا فرمایا۔ آپ کی فضیلت علمی فضیلت ہے اور یہ شرف ہے جسے علم سے تعبیر کیا گیا ہے، اور اس وجہ سے ان کی فضیلت واضح ہوئی (کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچا ہوا دودھ نوش فرمایا)

↰ مزید اگر غور کیا جائے تو مناسبت یوں بھی ظاہر ہو گی کہ پچھلے باب میں ہم نے بحث کی کہ امام بخاری نے «باب رفع العلم وظهور الجهل» قائم فرمایا، جس میں تعلیم و تبلیغ کی ترغیب دینا مقصود دکھلائی دیتی ہے۔ اور اس باب میں اس کو بیان کرنا اور اس کی تعلیم دینا مقصود ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابتداء میں «باب فضل العلم» قائم فرمایا جس سے اہل علم کی فضیلت مراد ہے اور مذکورہ باب میں «فضل علم» سے فضیلت علم مراد ہے۔‏‏‏‏ ديكهيے: [فتح الباري لابن حجر، ج2، ص3]

◈ علامہ کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
کتاب العلم کے ابتداء میں فضیلت علم مراد ہے اور اس مقام پر فضلہ یعنی زائد علم مراد ہے۔‏‏‏‏ [لكواب الدراري، ج2، ص180]

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا رحجان بھی یہی ہے۔ ديكهيے: [فتح الباري، ج1، ص180]

◈ علامہ سندھی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مقام پر «باب فضل العلم» قائم فرمایا ہے، مطلب یہ ہے کہ اس فضل کے ساتھ کیا کیا جائے؟ حدیث کے باب سے معلوم ہوا کہ اگر کسی کے پاس کچھ زائد علم ہو تو دوسروں کو دینا چاہئیے۔ لیکن یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس عالم میں یہ بھی ممکن ہو کہ علم زائد ہو جائے کہ دوسروں کو دینے کی نوبت آئے؟ علامہ صاحب فرماتے ہیں کہ علم کے زائد ہونے کی صورت ہو سکتی ہے۔ بایں طور کہ کسی کے پاس اگر زائد کتابیں ہیں تو وہ دوسروں کو ملکاً یا عاریتاً دے دے۔ اسی طرح اگر ایک شیخ سے انتفاع کرتا ہوا خود شیخ کے مرتبے کو پہنچ گیا تو دوسروں کو ان سے انتفاع کا موقع فراہم کرے۔ [حاشية السندي على الصحيح البخاري. ج1. ص49]

لہٰذا ترجمۃ الباب اور حدیث سے جس مسئلے کی تائید ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ اس باب میں تبلیغ و تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا مقصود ہے۔ جیسا کہ ابواب سابقہ اور لاحقہ سے ظاہر ہوتا ہے۔

◈ محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
میرے نزدیک یہاں یہ احتمال بھی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود زیادت علم کی ترغیب دینا ہو یعنی یہ نہ ہو کہ صرف بقدر حاجت پر آدمی اکتفا کرے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں دودھ بقدر ضرورت نہیں نوش فرمایا بلکہ اس قدر پیا کہ آپ کے ناخنوں سے دودھ نکلا۔ گویا مصنف رحمہ اللہ نے یہاں ترجمۃ الباب سے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث کی تائید کی ہے۔
«منهومان لا يشبعان ...» [شعب الايمان للبيهقي ج7، ص271]
(قلت) مذکورہ بالا حدیث میں کئی اہم فضیلتیں موجود ہیں جس سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہوتی ہے۔
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ نوش فرمایا یہ فطری عمل ہے۔
➋ یہ دودھ علم سے تعبیر کیا گیا ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں مرقوم ہے۔
➌ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ دودھ نصیب ہوا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچا ہوا تھا۔
➍ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا یہ نبوت کا علم ہے جس سے صحابی سیراب ہوئے۔
➎ اصل علم کا منبہ اور سرچشمہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں، کیونکہ امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے علم سے استفادہ کرتی ہے۔
➏ بچا ہوا دودھ اس مکمل دودھ کا حصہ ہے۔ لہٰذا علم نبوت میں کسی کو اپنی رائے یا من مانی کی ہرگز اجازت نہیں۔ یہ بھی تطبیق ہو سکتی ہے کہ کتاب العلم کے ابتداء میں فضل علم بااعتبار رفع درجات مراد ہے، کیونکہ وہاں آیت کریمہ المجادلۃ 11 سے استدلال ہے اور یہاں فضل علم سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچا ہوا ہے۔ [الكنز المتواري، ج2، ص210]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 109   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2284  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں دودھ اور قمیص دیکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: میں سویا ہوا تھا کہ اس دوران میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا، میں نے اس سے پیا پھر اپنا جوٹھا عمر بن خطاب کو دے دیا، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی؟ فرمایا: علم سے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الرؤيا/حدیث: 2284]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
علم سے اس کی تعبیربیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح دودھ میں بکثرت فائدے ہیں اوررب العالمین اسے گوبر اور خون کے درمیان سے نکالتا ہے اسی طرح علم کے فوائدبے انتہا ہیں،
اسے بھی رب العالمین شک اورجہالت کے درمیان سے نکالتا ہے پھراپنے بندوں میں سے جسے چاہتاہے اس سے نوازتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2284   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7027  
7027. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: میں ایک دفعہ سو رہا تھا اچانک میرے پاس دودھ کا پیالہ لایا گیا۔ میں نے اس سے خوب سیر ہو کر نوش کیا حتی کہ میں نے سیرابی کو ہر رگ وپے میں پایا۔ پھر میں نے بچا ہوا عمر کو دے دیا۔ صحابہ کرام نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی ہے؟ آپ نے فرمایا: علم۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7027]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ علم نبوی کے بھی پورے طور پر حامل تھے۔
بہت ہی برے ہیں وہ لوگ جو ایسے فدائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص کریں اللہ ان کو نیک ہدایت کرے۔
آمین۔
خواب میں دودھ پینے سے علوم دین کی تحصیل اس کی تعبیر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7027   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7027  
7027. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: میں ایک دفعہ سو رہا تھا اچانک میرے پاس دودھ کا پیالہ لایا گیا۔ میں نے اس سے خوب سیر ہو کر نوش کیا حتی کہ میں نے سیرابی کو ہر رگ وپے میں پایا۔ پھر میں نے بچا ہوا عمر کو دے دیا۔ صحابہ کرام نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی ہے؟ آپ نے فرمایا: علم۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7027]
حدیث حاشیہ:

خواب میں دودھ پینا اس کی تعبیر علم شریعت حاصل کرناہے جو فطرت اسلام سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ علم نبوی کے پوری طرح حامل تھے لیکن کچھ لوگوں کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ فضیلت گوارا نہیں۔
انھوں نے اس کے مقابلے میں ایک حدیث گھڑ لی ہے:
میں علم کا شہر ہوں اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کا دروازہ ہے۔
گویا علم نبوت کا حاصل کرنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بغیر ناممکن ہے۔
اس روایت کو امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔
(المستدرك للحاکم: 126/3)
امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں یہ روایت موضوع اور خود ساختہ ہے اوراس کا راوی ابوصلت نہ ثقہ ہے اور نہ باعث اطمینان۔
(تلخیص المستدرك: 126/3)
امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ روایت جھوٹ کا پلندہ ہے اور اس کی کوئی بنیاد نہیں۔
(تاریخ بغداد: 205/11)
امام جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کے تمام طرق پر بڑی سیرحاصل بحث کی ہے، انھوں نے اس روایت کو عقلی اور نقلی رحمۃ اللہ علیہ لحاظ سے بے بنیاد قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ حدیث کسی بھی طریق سے صحیح ثابت نہیں ہے۔
(الموضوعات: 353/1)
اس روایت کے دوسرے الفاظ جنھیں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے وہ یہ ہیں:
میں دانائی کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔
(جامع الترمذي، المناقب، حدیث: 3723)
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مضطرب ہونے کے ساتھ ساتھ بے بنیاد بھی ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ روایت محض جھوٹ ہے۔
(أحادیث القصاص، ص: 78)
امام شوکانی نے اسے موضوعات میں شمار کیا ہے۔
(الفوائد المجموعة في الأحادیث الموضوعة، ص: 248)
شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے موضوع قرار دیا ہے۔
(ضعیف الجامع الصغیر حدیث 1416)
اس کی تفصیل فتاویٰ اصحاب الحدیث جلد:
(1/50۔
51)

میں دیکھی جا سکتی ہے جسے راقم نے مرتب کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7027